Al-Quran-al-Kareem - Al-Qalam : 17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم نے بَلَوْنٰهُمْ : آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو كَمَا بَلَوْنَآ : جیسا کہ آزمایا ہم نے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : باغ والوں کو اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انہوں نے قسم کھائی لَيَصْرِمُنَّهَا : البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو مُصْبِحِيْنَ : صبح سویرے
یقینا ہم نے انھیں آزمایا ہے، جیسے ہم نے باغ والوں کو آزمایا، جب انھوں نے قسم کھائی کہ صبح ہوتے ہوتے اس کا پھل ضرور ہی توڑ لیں گے۔
1۔ اِنَّا بَلَوْنٰـہُمْ کَمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ۔۔۔۔: اہل مکہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بیشمار نعمتوں سے نوازا تھا۔ تمام لوگ حج کے لیے انکے پاس آتے اور اپنی ضروریات کے لیے ان کے گاہک بنتے تھے ، وہ جہاں جاتے اہل حرم ہونے کی وجہ سے انہیں کوئی کچھ نہ کہتا۔ ہر قسم کا میوہ ان کے شہر پہنچ جاتا ، ان کی تجارت خوب چمکی ہوئی تھی اور وہ نہایت مال دار اور مکمل امن کی نعمت سے بہرہ ور تھے۔ ان نعمتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ انعام بھی کیا کہ ان میں اپنا آخری رسول ﷺ مبعوث فرمایا ، مگر انہوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی بلکہ آپ ﷺ کو جھٹلا دیا ، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بھوک اور خوف کا عذاب مسلط کردیا۔ رسول اللہ ﷺ کے مدینہ چلے جانے کے بعد قریش نے آپ کے ساتھ جنگوں کا سلسلہ شروع کردیا ، جس سے وہ خود بھی غیر محفوظ ہوگئے اور ان کی تجارت بھی برباد ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ کی بد دعا سے ان پر قحط مسلط ہوگیا ، یہاں تک کہ وہ مردار تک کھا گئے۔ (دیکھئے بخاری ، 4828، 4809) اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کی اس حالت کا ذکر ان آیات میں بیان کیا ہے :(وَضَرَبَ اللہ ُ مَثَـلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللہ ِ فَاَذَاقَہَا اللہ ُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ وَلَقَدْ جَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْہُمْ فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَہُمُ الْعَذَابُ وَہُمْ ظٰلِمُوْنَ) (النحل : 112، 113) ”اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی جو امن والی ، اطمینان والی تھی ، اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے آتا تھا ، تو اس نے اللہ کی نعمتوں کی نا شکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا، اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے اور بلا شبہ یقینا ان کے پاس انہی میں سے ایک رسول آیا تو انہوں نے اسے جھٹلا دیا ، تو انہیں عذاب نے اس حال میں آپکڑا کہ وہ ظالم تھے“۔ یہاں اہل مکہ کی نا شکری اور اس پر سزا کے لیے بطور مثال ایک باغ والوں کا قصہ بیان کیا اور فرمایا :(انا بلونھم کما بلونا اصحب الجنۃ) ”بیشک ہم نے مکذبین کو نعمت دے کر آزمایا جس طرح باغ والوں کو نعمت دے کر آزمایا تھا“۔ یہ چند بھائی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بہت شاندار باغ عطاء فرمایا تھا، مگر بجائے اس کے کہ وہ اسے اللہ کی نعمت سمجھ کر اس میں سے اللہ تعالیٰ کا حصہ نکالتے ، انہوں نے قسم کھالی کہ صبح ہوتے ہی اس کا پھل توڑ لیں گے ، کسی مسکین کو نہ آنے دیں گے اور نہ انہیں کچھ دیں گے ، مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کے جانے سے پہلے ہی آگ لگنے یا کسی اور آسمانی آفت سے باغ برباد ہوگیا۔ صبح گئے تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ 2۔”بلونھم“ ”بلا یبلو“ (ن) آزمانا ، مصیبت میں مبتلا کرنا ، انعام کرنا۔”لیصرمنھا“ ”صرم یصرم“ (ض) کاٹنا ، کٹنا ، ”صریم“ کٹا ہوا۔ یہ باغ کہا تھا اور باغ والے کون تھے ؟ قرآن نے ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ قرآن واقعات کو بطور تاریخ نہیں بلکہ بطور عبرت بیان کرتا ہے اور اس کے لیے نفس واقعہ ہی کافی ہے۔ اس مقام پر سورة ٔ کہف کی آیات (32 تا 44) بھی دیکھ لیں ، وہاں بھی عبرت دلانے کے لیے دو باغ رکھنے والے کی مثال بیان کی گئی ہے۔
Top