Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 33
هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَۚ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : وہ جو کہ يُرِيْكُمُ : تمہیں دکھاتا ہے الْبَرْقَ : بجلی خَوْفًا : ڈرانے کو وَّطَمَعًا : اور امید دلانے کو وَّيُنْشِئُ : اور اٹھاتا ہے السَّحَابَ : بادل الثِّقَالَ : بوجھل
اور جو شخص سچی بات لے کر آیا اور جنھوں نے اس کی تصدیق کی، وہی لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں
وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖٓ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ۔ (الزمر : 33) ( اور جو شخص سچی بات لے کر آیا اور جنھوں نے اس کی تصدیق کی، وہی لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔ ) جو مقدمہ اللہ تعالیٰ کے حضور قیامت کے دن پیش ہوگا اس کے دو فریق ہوں گے، ایک تو وہ کافر جنھوں نے نبی کریم ﷺ کی دعوت کو نہ صرف ماننے سے انکار کیا بلکہ آنحضرت ﷺ کی بھی تکذیب کی۔ اس فریق کے بارے میں فیصلہ اوپر کی آیت میں سنا دیا گیا اور ان کے انجام کی بھی خبر دے دی گئی۔ اب پیش نظر آیت کریمہ میں دوسرے فریق کے بارے میں فیصلہ سنایا جارہا ہے۔ اس فریق میں ایک تو نبی کریم ﷺ ہیں اور دوسرے آپ کے فرمانبردار اور متبع لوگ ہیں۔ ان دونوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں اور یہ جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔ رہے ان کے بلند مقامات اور درجات، اس کا ذکر اگلی آیت میں آرہا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ذکر آپ کے نام سے نہیں بلکہ یہ کہہ کر کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عظیم رسول جو سچائی لے کر آئے۔ صدق اور سچائی سے مراد قرآن کریم ہے۔ نبی کریم ﷺ پر قرآن کریم نازل کیا گیا اور آپ اس عظیم نعمت اور امانت کو لے کر لوگوں کے پاس تشریف لائے۔ کس شان سے آئے، کس طرح لوگوں کے سامنے اسے پیش کیا، اس کی آپ نے کیا قیمت ادا کی، آپ نے اس تبلیغ و دعوت کے حوالے سے کیا کیا دکھ اٹھائے اور آپ نے کیسی کیسی استقامت کی مثالیں قائم کیں اور کس طرح مخالفین کی اذیتوں کے مقابلے میں ہمدردی اور غمگساری کی بینظیر روایات قائم کیں۔ یہ تمام تفصیلات اور تمام دل کو ہلا دینے والے تجربات ان دو لفظوں میں شامل ہیں۔ اور پھر آپ کے فرماں بردار اور جاں نثار امتیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس سچائی کی تصدیق کی۔ یعنی جو کچھ آپ پر نازل ہوا اس کے ایک ایک لفظ کے شاہد بنے۔ قولی گواہی بھی دی اور عملی شہادت بھی قائم کی۔ نبی کریم ﷺ کے نقوش قدم کی پیروی کو انھوں نے زندگی کا معمول بنایا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس بات کی خبر دی انھوں نے یقین کامل کے ساتھ اسے اپنے دل میں اتار لیا۔ اس راستے میں آنے والی مشکلات کو اپنے لیے آخرت کا سرمایہ سمجھا اور آپ کی ہر بات کی تصدیق زبان سے بھی کی اور عمل سے بھی۔ اور مسلسل قربانیاں دے کر اس تصدیق کو زندہ جاوید بنادیا۔ اس فیصلے میں یہ بات واضح کردی گئی کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں تقویٰ کے دو ہی معیار ہیں۔ ایک ہے قرآن کریم جیسی سچائی کو اس طرح لوگوں کے سامنے پیش کرنا جیسے آنحضرت ﷺ نے کیا۔ اور دوسرا معیار ہے کہ اس سچائی کی تصدیق کی جائے۔ چناچہ اس کا سب سے اعلیٰ نمونہ حضرت ابوبکر صدیق ( رض) کی ذات گرامی ہے۔ آپ ( رض) سب سے پہلے ایمان لائے، آنحضرت ﷺ کی حفاظت میں سب سے پہلے مار کھائی، اپنی چار نسلیں اسلام کی آغوش میں دے دیں، اپنا سارا کاروبار اسلام پر قربان کردیا، اپنا تمام مال و دولت اسلام پر خرچ کر ڈالا، وہ کمزور غلام جو اسلام لانے کی پاداش میں بری طرح اذیتوں کا شکار تھے انھیں خریدا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں آزاد کردیا، تبلیغ و دعوت میں آنحضرت ﷺ کے رفیق رہے، کوئی قابل ذکر موقع ایسا نہیں جب آپ ( رض) نبی کریم ﷺ کے ساتھ نہ ہوئے۔ حتیٰ کہ غارثور کی تنہائیوں میں بھی آپ حضور ﷺ کے رفیق تھے، ہجرت میں آپ ﷺ کے ہمسفر رہے، ہجرت کے بعد بھی کوئی ایسا وقت نہیں آیا جب کسی اور نے آپ کی رفاقت کا آپ سے بڑھ کر حق ادا کیا ہو۔ حتیٰ کہ مرض الوفات میں آپ نے آنحضرت ﷺ کے حکم سے لوگوں کو نماز پڑھائی، اور آپ کی وفات حسرت آیات کے بعد آپ ﷺ کے خلیفہ بنے اور سوا دو سال بعد ہی آپ ﷺ کی محبت میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے اور قیامت تک کے لیے آپ ﷺ کے پہلو میں آرام کررہے ہیں۔ اقبال نے نہایت سادہ سے شعر میں آپ ( رض) کی زندگی کی ایسی تصویر کھینچ دی ہے کہ جس سے بہتر تصویر ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس آج بھی حق و باطل کی کشمکش میں مسلمانوں کے لیے یہی دونوں مقامات ہیں جو ان کے ایمان و اسلام کی گواہی دے سکتے ہیں کہ ہر مومن کو یا تو اسلام کا علم بردار ہونا چاہیے اور یا کسی علم بردار کا اسے سپورٹر ہونا چاہیے۔ یعنی یا وہ آگے بڑھ کر اسلام کا جھنڈا اٹھائے اور یا وہ جھنڈا اٹھانے والے کا ساتھ دے۔ یعنی یا خود جہاد کے لیے نکلے اور یا جہاد کرنے والوں کی ہر ممکن مدد کرے۔ اس کے سوا تیسرا کوئی مقام نہیں جو حق و باطل کی کشمکش میں ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کی بازپرس سے بچا سکتا ہو۔
Top