Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 243
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم نے بَلَوْنٰهُمْ : آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو كَمَا بَلَوْنَآ : جیسا کہ آزمایا ہم نے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : باغ والوں کو اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انہوں نے قسم کھائی لَيَصْرِمُنَّهَا : البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو مُصْبِحِيْنَ : صبح سویرے
ہم نے ان کو جانچا ہے جیسے جانچا تھا باغ والوں کو جب ان سب نے قسم کھائی کہ اس کا میوہ توڑیں گے صبح ہوتے
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ (یعنی ہم نے آزمائش میں ڈالا ان (اہل مکہ) کو جس طرح آزمائش میں ڈالا تھا باغ والوں کو) سابقہ آیات میں کفار اہل مکہ کی نبی کریم ﷺ پر طعن وتشنیع کا جواب تھا۔ ان آیات میں حق تعالیٰ نے پچھلے زمانے کا ایک قصہ ذکر کر کے اہل مکہ کو تنبیہ فرمائی اور عذاب سے ڈرایا۔ اہل مکہ کو آزمائش میں ڈالنے سے یہ مراد بھی ہو سکتی کہ جس طرح آئندہ آنے والے قصہ میں باغ والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمایا انہوں نے ناشکری کی جس کے نتیجہ میں عذاب آ گیا اور ان کی نعمت سلب ہوگئی، حق تعالیٰ نے اہل مکہ پر اپنا سب سے بڑا انعام تو یہ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو ان کے اندر پیدا فرمایا اس کے علاوہ ان کی تجارتوں میں برکت عطا فرمائی اور ان کو خوشحال بنادیا، یہ ان کی آزمائش ہے کہا للہت عالیٰ کی ان نعمتوں کے شکر گزار ہوتے ہیں اور اللہ و رسول پر ایمان لاتے ہیں یا اپنے کفر وعناد پر جمے رہتے ہیں۔ دوسری صورت میں ان کو باغ والوں کے قصہ سے عبرت حاصل کرنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کفر ان نعمت سے ان پر بھی ایسا ہی عذاب نہ آجائے۔ یہ تفسیر اس صورت میں بھی صادق ہے جبکہ ان آیات کو بھی مثل اکثر سورت کے مکی قرار دیا جائے لیکن بہت سے حضرات مفسرین نے ان آیات کو مدنی قرار دیا ہے اور جس آزمائش کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد وہ قحط کا عذاب ہے جو رسول ﷺ کی بد دعا سے ان لوگوں پر مسلط ہوا تھا جس میں وہ بھوک سے مرنے لگے اور مردار جانور اور درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یہ واقعہ ہجرت کے بعد کا ہے۔
باغ والوں کا قصہ۔ یہ باغ بعض سلف جیسے حضرت ابن عباس وغیرہ کے قول پر یمن میں تھا اور حضرت سعید بن جبیر کی ایک روایت یہ ہے کہ صنعاء جو یمن کا مشہور شہر اور دارالسلطنت ہے اس سے چھ میل کے فاصلے پر تھا اور بعض حضرات نے اس کا محل وقوع حبشہ کو بتلایا ہے (ابن کثیر) یہ لوگ اہل کتاب میں سے تھے اور یہ واقعہ رفع عیسیٰ ؑ کے کھچ عرص ہبع کا ہے (قرطبی)
آیت مذکورہ میں ان کو اصحاب الجنتہ یعنی باغ والوں کے نام سے تعبیر کیا ہے مگر مضمون آیات سے معلوم ہوتا ہے کہا ان کے پاس صرف باغ ہی نہیں بلکہ کاشت کی زمینیں بھی تھیں۔ ہوسکتا ہے کہ باغ کے ساتھ ہی مزروعہ زمین بھی ہو مگر باغوں کی ہشرت کے سبب باغ والے کہہ دیا گیا۔ واقعہان کا بروایت محمد بن مروان حضرت عبداللہ ابن عباس سے اس طحر منقول ہے۔ صنعا یمن سے دو فرسخ کے فاصلے پر ایک باغ تھا جس کو صروان کہا جاتا تھا۔ یہ باغ ایک صالح اور نیک بندے نے لگایات ھا اس کا عمل یہ تھا کہ جب کھیتی کاٹتا تو جو درخت دراتنی سے باقی رہ جاتے تھے ان کو فقراء و مساکین کے لئے چھوڑ دیتا تھا یہ لوگ اس سے غلہ حاصل کر کے اپنا گزارہ کرتے تھے۔ اسی طرح جب کھیتی کو گاہ کو غلہ نکالتا تو جو دانہ بھوسے کیساتھ اڑ کر الگ ہوجاتا، اس دانے کو بھی فقراء و مساکین کے لئے چھوڑ دیتا تھا، اسی طرح جب باغ کے درختوں سے پھل توڑتا تو توڑنے کے وقت جو پھل نیچے گر جاتا وہ بھی فقراء کے لئے چھوڑ دیتا تھا (یہی وجہ تھی کہ جب اس کی کھیتی کٹنے یا پھل توڑنے کا وقت آتا تو بہت سے فقراء و مساکین جمع ہوجاتے تھے) اس مرد مصالح کا انتقال ہوگیا اس کے کتنی بیٹے باغ اور زمین کے وارث ہوئے، انہوں نے آپس میں گفتگو کی کہ اب ہمارا عیال بڑھ گیا ہے اور پیداوار ان کی ضرورت سے کم ہے اس لئے اب ان فقراء کے لئے ا تنا غلہ اور پھل چھوڑ دینا ہمارے بس کی بات نہیں اور بعض روایات میں ہے کہ ان لڑکوں نے آزاد نوجوانوں کی طرح یہ کہا کہ ہمارا باپ تو بیوقوف تھا اتنی بڑی مقدار غلہ اور پھل کی لوگوں کو لٹا دیتا تھا۔ ہمیں یہ طریقہ بند کرنا چاہئے، آگے ان کا قصہ خود قرآن کریم کے الفاظ میں حسب ذیل ہے۔
اِذْ اَقْسَمُوْا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِيْنَ وَلَا يَسْتَثْنُوْن یعنی انہوں نے آپس میں حلف قسم کر کے یہ عہد کیا کہا اب کی مرتبہ ہم صبح سویرے ہی جا کر کھیتی کاٹ لیں گے تاکہ مساکین و فقراء کو خبر نہ ہو اور وہ ساتھ نہ لگ لیں اور اپنے اس منصوبے پر ان کو اتنا یقین تھا کہ انشاء اللہ کہنے کی بھی توفیق نہ ہوئی جیسا کہ سنت ہے کہ کل جو کام کرنا ہے جب اس کا ذکر کرے تو یوں کہے کہ ہم انشاء اللہ کل یہ کام کریں گے۔
Top