Tadabbur-e-Quran - Al-Qalam : 17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم نے بَلَوْنٰهُمْ : آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو كَمَا بَلَوْنَآ : جیسا کہ آزمایا ہم نے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : باغ والوں کو اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انہوں نے قسم کھائی لَيَصْرِمُنَّهَا : البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو مُصْبِحِيْنَ : صبح سویرے
ہم نے ان کو اس طرح امتحان میں ڈالا ہے جس طرح باغ والوں کو امتحان میں ڈالا جب کہ انہوں نے قسم کھائی کہ وہ صبح سویرے ضروری اس کے پھل توڑ لیں گے
قریش کے لیڈروں کے لیے ایک تمثیل: اوپر قریش کے قائدین کا جو کردار بیان ہوا ہے اس کا کھوکھلا بن واضح کرنے کے لیے یہ ان کے سامنے ایک تمثیل بیان فرمائی ہے جس میں ان کو یہ دکھایا ہے کہ اپنے جس اقتدار پر ان کو یہ ناز و اعتماد ہے کہ پیغمبر ﷺ کے انذار کا مذاق اڑا رہے ہیں اس کی بنیاد بالکل ریت پر ہے۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا چشم زدن میں اس کو خاک میں ملا دے گا۔ اس وقت وہ اپنی بدبختی پر سر پیٹیں گے اور توبہ و استغفار بھی کریں گے لیکن ان کا سارا نالہ و شیون بالکل بے سود ہو گا۔ ’بَلَوْنَاہُمْ‘ میں ضمیر ’ہُمْ‘ کا مرجع ظاہر ہے کہ وہی لوگ ہوں گے جن کا کردار اوپر زیر بحث آیا ہے۔ یہ اس بات کا، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، نہایت واضح قرینہ ہے کہ یہ کردار کسی معین شخص کا نہیں بلکہ قریش کی پوری قیادت کا ہے۔ اگر کسی ایک شخص کا کردار بیان ہوا ہوتا تو ضمیر جمع کی جگہ واحد کی آتی۔ اسی طرح یہاں زبان کا ایک دوسرا نکتہ بھی قابل لحاظ ہے۔ وہ یہ کہ ’اَصْحَابَ الْجَنَّۃِ‘ میں لفظ ’اَلْجَنَّۃِ‘ پر الف لام داخل ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی خاص باغ والوں کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ تمثیلات میں لام تعریف یا ’اَلَّذِیْ‘ اور ’اَلَّتِیْ‘ وغیرہ جو آتے ہیں تو اس سے مقصود، جیسا کہ ہم ایک سے زیادہ مواقع میں وضاحت کر چکے ہیں، یہ نہیں ہوتا کہ کوئی معین ذات مدنظر ہے بلکہ اس سے مقصود صرف صورت حال کو مشخص و مصور کرنا ہوتا ہے تاکہ قاری کے سامنے واقعے کی پوری تصویر آ جائے۔ اس وجہ سے یہاں یمن یا صنعاء کے کسی خاص باغ کے مالکوں کے واقعہ کی جستجو کی زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے، جیسا کہ ہمارے مفسرین نے اٹھائی ہے، بلکہ یہ ایک خاکہ ہے جس میں قریش کے لیڈروں کے ذہن اور ان کے انجام کی تصویر اس طرح کھینچ دی گئی ہے کہ اس کا کوئی گوشہ مخفی نہیں رہ گیا۔ ’اِذْ أَقْسَمُوۡا لَیَصْرِمُنَّہَا مُصْبِحِیْنَ‘۔ یہ اس اعتماد کی طرف اشارہ ہے جو باغ والوں کو اپنی کامیابی پر تھا۔ وہ نہایت مطمئن اور پر امید تھے کہ ان کا باغ موسموں کے تمام تغیرات سے گزر کر اب اس مرحلہ میں داخل ہو گیا جس میں اس پر کسی آفت کا کوئی اندیشہ نہیں رہا۔ ان کے خیال میں بس اتنا کام باقی رہ گیا تھا کہ کل صبح وہ جائیں اور پھل توڑ کر اپنے گھروں کو لائیں۔ چنانچہ انھوں نے قسم کھا کر یہ ارادہ کیا کہ صبح ہم اس کے پھل ضرور ہی توڑ لیں گے۔
Top