Al-Qurtubi - Al-Qalam : 17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم نے بَلَوْنٰهُمْ : آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو كَمَا بَلَوْنَآ : جیسا کہ آزمایا ہم نے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : باغ والوں کو اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انہوں نے قسم کھائی لَيَصْرِمُنَّهَا : البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو مُصْبِحِيْنَ : صبح سویرے
ہم نے ان لوگوں کی اس طرح آزمائش کی ہم جس طرح باغ والوں کی آزمائش کی تھی جب انہوں نے قمسیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے
اس میں تین مسائل ہیں : باغ والوں کا ابتلا اور ان کا قصہ مسئلہ نمبر 1 انا بلونھم مراد اہل مکہ ہیں۔ ابتلاء سے مراد آزمانا ہے۔ اس کا معنی ہے ہم نے انہیں مال عطا کئے تاکہ وہ شکر بجا لائیں نہ کہ وہ تکبر کریں۔ جب انہوں نے تکبر کیا اور حضرت محمد ﷺ سے دشمن یک تو ہم نے بھوک اور قحط کے ساتھ آزمایا جس طرح مہ نے باغ والوں کو آزمایا تھا جن کی خبر ان کے ہاں معروف و مشہور تھی۔ وہ باغ یمن کے علاقہ میں صنعاء سے چند فرسخ دور تھا۔ ایک قول یہ کیا جاتا ہے : وہ دو فرسخ دور تھا وہ باغ ایک ایسے آدمی کا تھا جو اس میں سے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کیا کرتا تھا جب وہ فوت ہوگیا تو باغ بیٹوں کی ملکیت میں آگیا انہوں نے لوگوں کو اس کے مال سے روک دیا اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے میں بخل سے کام لیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس باغ کو ایسے طریقہ سے ہلاک کردیا جس کو دور کرنا ان کے لئے ممکن نہ تھا۔ کلبی نے کہا، ان کے اور صنعاء کے درمیان دو فرسخ کا فاصلہ تھا اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمئاش میں ڈالا کہ ان کے باغ کو جلا دیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ باغ ضوران میں تھا اور ضوران، صنعاء سے دو فرسخ کے مقام پر تھا۔ اس باغ والے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے سے تھوڑا عرصہ بعد ہوئے وہ سب بخیل تھے وہ مساکین سے بچنے کے لئے رات کے وقت کھجوروں سے پھل اتارتے تھے۔ انہوں نے فصل کاٹنے کا ارادہ کیا اور کہا : آج تم پر کوئی مسکین داخل نہ ہونے پائے وہ صبح صبح اس کی طرف گئے تو وہ باغ اپنی جڑوں سے اکھیڑا جا چکا تھا تو وہ رات کی طرح ہوچکا تھا۔ یہب یھ کہا جاتا ہے کہ دن کو بھی صریم کہتے ہیں۔ اگر رات مراد لی جائے تو اس جگہ کے سیاہ ہونے کی وجہ سے اسے صریم کیا گیا گویا انہوں نے اس کی جگہ کو سیاہ کیچڑ کوئلہ پایا اگر صریم سے مراد دن ہو تو اس کے درختوں اور کھیتیوں کے ختم ہونے اور زمین کے اندر سے صاف ہونے کی وجہ سے اسے صریم کہا گیا۔ طائف سے مراد حضرت جبریل امین ہیں انہوں نے اس باغ کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔ یہ بھی کہا اجتا ہے : اس باغ کو بیت اللہ شریف کے گرد چکر لگایا اور پھر اسے وہاں رکھ دیا جہاں آج کل طائف شہر ہے۔ اسی وجہ سے اس شہر کو طائف کہتے ہیں۔ حجاز کے علاقہ میں کوئی ایسا شہر نہیں جہاں درخت، انگور اور پانی ہو۔ بکری نے معجم میں کہا : طائف کو یہ نام اس لئے دیا گیا کیونکہ صدف کا ایک آدمی جسے دمون کہا جاتا اس نے ایک دیوار بنائی اور کہا : میں نے تمہارے شہر کے اردگرد ایک طائف بنائی ہے اس وجہ سے اس شہر کا نام طائف پڑگیا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ کھیتی کاٹنے کا وقت اور اس وقت کیا کرنا چاہئے مسئلہ نمبر 2 بعض علماء نے کہا : جو آدمی اپنی کھیتی کاٹے یا پھل کاٹے تو جو آدمی وہاں حاضر ہو اس کے ساتھ غم گساری کرے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان : واتواحقہ یوم حصادہ (الانعام : 141) کا یہی مقصود ہے، یہ زکوۃ کے علاوہ ہے جس طرح سورة الانعام میں گزر چکا ہے۔ بعض نے کہا : کاٹنے والوں نے جسے چھوڑ دیا ہے مالک پر لازم ہے کہ اسے چھوڑ دے کیونکہ بعض لوگ اس سے اپنی روزی تلاش کرتے ہیں۔ روایت بیان کی گئی ہے کہ رات کے وقت فصل کاٹنے سے منع کیا گیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کیونکہ اس طریقہ سے مساکین کے ساتھ نرمی کرنے کا حکم ہے وہ منقطع ہوجاتا ع ہے جس نے یہ کہا اس نے سورة ن والقلم کی اس آیت کی یہ تاویل کی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : رات کے وقت اس لئے کاٹنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ سانپوں اور دوسرے حشرارت الارض کا خوف ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ دوسرا احسن ہے۔ ہم نے کہا ہے، پہلا قومل زیادہ صحیح ہے کیونکہ سزا انہیں اسی لئے ملی جو انہوں نے مساکین کو محروم رکھنے کا ارادہ کیا تھا جس طرح اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا۔ اسباط نے سدی سے روایت کی ہے کہ ایک قوم یمن میں آاد تھی ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا جب ان کے پھل پک جاتے تو مساکین اس کے پاس آجاتے وہ باغ میں داخل وہنے سے انہیں منع نہ کرتا، اس سے کھانے سے منع نہ کرتا اور زادراہ لینے سے منع نہ کرتا۔ جب وہ فوت ہوگیا تو اس کے بیٹوں نے ایک دوسرے سے کہا، ہم اپنے اموال مساکین کو کیوں دیں۔ آئو۔ ہم رات کے وقت اس میں داخل ہوں اور مساکین کو علم ہونے سے پہلے ہی کاٹ لیں۔ انہوں نے انشاء اللہ بھی نہ کہا۔ ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے راز داری سے بات کرو آج تم پر کوئی مسکین داخل نہ ہو اسی وجہ سے فرمایا : اذاق سموا لیصرمنھا مصبحین۔ انہوں نے ……کہ مساکین کے گھروں سے نکلنے سے پہلے ہم صبح صبح اسے کاٹ لیں اور انہوں نے انشاء اللہ نے کہا۔ حضرت ابن عباس نے کہا : وہ باغ صنعاء سے دو فرسخ کے مقام پر تھا اسے ایک صالح آدمی نے لگایا تھا اس کے تین بیٹے تھے وہ تمام پھل مساکین کے لئے ہوتا جو درانتی یس رہ جاتا اور اگنور میں سے اس نے نہکاٹا ہوتا جب اسے چادر پر ڈالا جاتا تو جو پھل اس چادر سے گزر جاتا وہ بھی مساکین کے لئے ہوتا جب وہ اپنی کھیتی کاٹتے تو جو چیز دراتنی سے رہ جاتی وہ مساکین کے لئے ہوتی جب وہ اس فصل کو صاف کرتے تو جبو چیز ادھر ادھر بکھر جاتی وہ بھی مساکین کے لئے ہوتی ان کا باپ اس میں سے صدقہ کرتا ان کے باپ کی زندگی میں یتامی، بیوائیں اور مساکین اس سے وقت گزارتے جب ان کا باپ فوت ہوگیا تو بیٹوں نے وہ کچھ لیا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ذکر کیا۔ انہوں نے کہا، مال کم ہوگیا ہے اور اہل و عیال زیادہ ہوگئے ہیں، انہوں نے باہم قسم اٹھائی کہ لوگوں کے نکلنے سے پہلے وہ باغ کی طرف جائیں گے پھر اسے کاٹیں گے اور مساکین کو پتہ بھی نہ چلے گا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : اذا قسموا لیصرمنھا کا یہی معنی ہے انہوں نے قسم اٹھائی کہ وہ اپنی کھجوروں کا پھل اس وقت کاٹیں گے جب ابھی رات کی کچھ تاریکی ہوگی تاکہ مساکین بیدار نہ ہو ہوں۔ صرمہ کا معنی کاٹنا ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : صرم العذق من النخل اس نے کھجور کا خوشہ کاٹا۔ اصرم النخل کھجور کے کاٹنے کا وقت آگیا جس طرح ارکب المھر اور احصد الزرع یعنی بچھیرے پر سواری کرنے کا وقت آگیا اور کھیتی کے کاٹنے کا وقت آگیا۔ ولایستثنون۔ انہوں نے انشاء اللہ نے کہا، فتنادوا مصبحین وہ ایک دوسرے کو ندا کرتے ہیں : ان اغدوا علی حرشکم ان کنتم صرمین۔ کھیتی کو کاٹنے کا عزم رکھتے ہو۔ قتادہ نے کہا : اگر تم کھیتی کاٹنے والے ہو۔ کلبی نے کہا : ان کے باغ میں جو کھیتی اور کھجوریں ہیں انہیں کاٹنے والے ہو۔ مجاہد نے کہا، ان کی کھیتی انگور کی تھی۔ انہوں نے انشاء اللہ نے کہا (1) ابو صالح نے کہا، ان کی استثناء ان کا یہ قول تھا، سبحان اللہ ربنا ایک قول یہ کیا گیا ہے : لایستثنوکن کا معنی ہے وہ مساکین تا حق نہیں نکالتے، یہ علماء کا قول ہے وہ اپنے باغ میں رات کے وقت آئے انہوں نے باغ کو سیاہ پایا تیرے رب کی جانب سے ان پر ایک مصیبت آئی جبکہ وہ سوئے ہوئے تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، طائف سے مراد حضرت جبریل امین ہیں جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ حرت ابن عباس نے کہا : اس سے مراد ہے تیرے رب کی جانب سے امر (2) قتادہ نے کہا، تیرے رب کی جانب سے عذاب۔ ابن جریج نے کہا، آگ کی گردن جو جہنم کی وادی سے نکلی تھی۔ طائف اس مصیبت کو کہتے ہیں جو رات کے وقت آئے، یہ فراء کا قول ہے (3) مسئلہ نمبر 3۔ میں کہتا ہوں : اس آیت میں ایسی دلیل ہے کہ عزم پر بھی انسان کا مواخذہ ہوگا کیونکہ انہوں نے عزم کیا تھا کہ وہ ایسا کریں گے تو ان کے فعل سے پعلے انہیں سزا دی گئی۔ اس آیت کی مثل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ومن یردفیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم۔ (الحج) صحیح میں نبی کریم ﷺ سے مروی ہے :” جو دو مسلمان پانی تلواروں کے ساتھ باہم مقابلہ کرتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں آگ میں ہونگے “ (1) عرض کی گئی : یا رسول اللہ ! ﷺ یہ تو قاتل ہے تو مقتول کس وجہ سے ؟ فرمایا :” وہ اپنے ساتھی کے قتل کا حریص تھا۔ “ سورة آل عمران آیت 135 میں ولم یصروا علی ما فعلوا کے ضمن میں بحث گزر چکی ہے۔
Top