Anwar-ul-Bayan - Al-Hijr : 85
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْنَا : پیدا کیا ہم نے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَآ : ان کے درمیان اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک السَّاعَةَ : قیامت لَاٰتِيَةٌ : ضرور آنیوالی فَاصْفَحِ : پس درگزر کرو الصَّفْحَ : درگزر کرنا الْجَمِيْلَ : اچھا
'' اور ہم نے آسمان کو اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے پیدا نہیں کیا مگر حق کے ساتھ، اور بلاشبہ قیامت ضرور آنے والی ہے، سو آپ خوبی کے ساتھ درگزر کیجیے،
اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو حکمت کے موافق پیدا فرمایا ہے آیت بالا میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور کچھ ان کے درمیان ہے صرف حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے، حق کے ساتھ پیدا فرمانے کا یہ مطلب ہے کہ ان کی پیدائش حکمت کے موافق ہے عبرت کے لیے ہے، ان کی تخلیق میں خالق تعالیٰ شانہٗ کی توحید پر دلائل ہیں اور ان کا وجود معرفت حاصل کرنے کے لیے جیسا کہ سورة آل عمران میں فرمایا (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا) (عقل والے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب آپ نے یہ سب بےفائدہ پیدا نہیں فرمایا) صاحب روح المعانی نے ص 77 ج 14 آیت کا مطلب بتاتے ہوئے اس انداز سے بات کی ہے کہ ما سبق سے بھی ارتباط ہوجاتا ہے وہ لکھتے ہیں ای الاخلقا متلبسا بالحق والحکمۃ بحیث لایلائم استمرار الفساد و استقرار الشرور، وقد اقتضت الحکمۃ اھلاک امثال ھولاء دفعًا لفسادھم وارشادا لمن بقی الی الصلاح (یعنی مگر آپ نے مخلوق کو حق و حکمت کے ساتھ پیدا کیا اس طرح کہ وہ پیدائش فساد کے قائم رہنے اور شرور کے موجود رہنے کے لیے مناسب نہیں ہے لہٰذا حکمت ان لوگوں کے فساد کو رفع کرنے اور باقی لوگوں کی صحیح راہنمائی کے لیے ان کے ہلاک کرنے کا تقاضا کرتی ہے) مطلب یہ ہے کہ ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے حق اور حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ حکمت کا تقاضا ہے کہ دنیا میں شر اور فساد جگہ نہ پکڑلیں اور فساد ہمیشہ نہ ہوتا رہے، حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ جن لوگوں کا پہلے ذکر ہوا ہے ان جیسوں کو ہلاک کرکے فساد کو رفع کردیا جائے اور بعد میں آنے والوں کے لیے ہدایت ہوجائے جو ان سے عبرت حاصل کریں اور اصلاح کی راہ پر چلیں۔ صاحب روح المعانی نے بعض حضرت سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ الحق سے عدل مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسی لیے پیدا کیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عدل اور انصاف کے ساتھ جزاء دے، لوگ آسمان اور زمین کے درمیان رہیں گے اور اچھے برے اعمال کریں گے تو قیامت کے دن ان کی جزا پالیں گے۔ (وَ اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ) (اور بلاشبہ قیامت ضرور آنے والی ہے) جو لوگ کفر پر مرگئے خواہ عذاب سے ہلاک ہوئے ہوں بلا عذاب موت آئی ہو ان سب کو اور ہر نیک و بد کو قیامت کے دن حاضر ہونا ہے، جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی وہ وہاں بھی سزا پالیں گے، اس میں نبی کرم ﷺ کو تسلی دی ہے کہ قیامت کے دن ان سے بدلہ لے لیا جائے گا۔ مزید فرمایا (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ ) (کہ آپ خوبی کے ساتھ درگزر کیجیے) علماء نے فرمایا ہے کہ صفح جمیل ایسے درگزر کرنے کو کہتے ہیں کہ جس میں ملامت اور عتاب نہ ہو، بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے قتال کا حکم آنے سے پہلے درگزر کرنے کا حکم تھا اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حسن خلق اور بردباری اور مدارات کے ساتھ ان کو دعوت دیتے رہیں حکمت و موعظت حسنہ، حلم اور خوش خلقی کے ساتھ دعوت دیتے رہنا اپنی جگہ محمود چیز ہے لہٰذا منسوخ ماننے کی کوئی ضرورت نہیں پھر فرمایا (اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ ) (بلاشبہ آپ کا رب بڑا خالق ہے بڑا عالم) اسے سب کا حال معلوم ہے تکذیب کرنے والوں کا جھٹلانا اور آپ کا صبر کرنا اسے اس سب کا علم ہے وہ مخالفین کو مخالفت کی سزا دے گا اور آپ کو اجر وثواب اور رفع درجات سے نوازے گا آپ تمام امور اسی کے سپرد کیجیے اور غمگین نہ ہوئیے۔
Top