Mafhoom-ul-Quran - An-Najm : 85
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْنَا : پیدا کیا ہم نے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَآ : ان کے درمیان اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک السَّاعَةَ : قیامت لَاٰتِيَةٌ : ضرور آنیوالی فَاصْفَحِ : پس درگزر کرو الصَّفْحَ : درگزر کرنا الْجَمِيْلَ : اچھا
اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ (تدبیر سے پیدا کیا ہے) اور بیشک قیامت تو آنے ہی والی ہے، پس آپ ان کے ساتھ عمدگی سے درگز کریں۔
تخلیق ِکائنات کا مقصد تشریح : جیسا کہ اس سورت میں جگہ جگہ حکمت اور توازن کا ذکر کیا گیا ہے کہ یہ آسمان، زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزیں حق کے ساتھ پیدا کی گئی ہیں، یعنی یہ تمام کائنات ایک انتہائی موزوں اور بہترین کاریگری کا نمونہ ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اللہ نے یہ سب کچھ کیوں پیدا کیا ؟ یہ سوچنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اللہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔ وہ ہمارا رب ہے اور ہم اس کے بندے۔ ہمیں تو بس یہ سوچنا چاہیے کہ اس کو کس طرح خوش کریں کہ ہماری دنیا و آخرت سنور جائے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ بندے کو اپنے رب سے پیار ہونا چاہیے۔ جب ہم اس سے پیار کریں گے تو اس کے احکامات کو دل و جان سے مانیں گے جب اس کے احکامات کو مانیں گے تو وہ ہم سے خوش ہوگا اور جب وہ ہم سے خوش ہوگا تو ہم اس کی رحمتوں، برکتوں، فضل و کرم اور سعادتوں کے پہلے سے زیادہ مستحق ہوجائیں گے اور یوں ہمارے اندر ایک پاکیزہ روح، پاکیزہ ضمیر اور توکل علی اللہ پیدا ہوجائے گا۔ اور اس طرح ہم دنیا کی تمام پریشانیوں کو، شیطان کے بہکاوے کو بڑی بہادری سے اپنے اوپر طاری ہونے سے یقینا روک سکیں گے۔ اس کے لیے اصول بھی اللہ تعالیٰ نے خود بتا دیا ہے، فرمان رب العالمین ہے : اے نبی ﷺ فرما دیں اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔ (اٰل عمران :31) اطاعت رسول کرنے سے حق اور سچ ہماری رگ رگ میں سما جائے گا اور ہم اعتماد، توکل، صبر، استقامت، بہادری اور سکون کی ایک ایسی مضبوط چٹان بن جائیں گے کہ جسے موت بھی ڈرا نہ سکے۔ بلکہ موت کے وقت ہمارے لبوں پر مسکراہٹ ہوگی کہ سرخرو ہو کر اپنے پیارے رب سے ملنے جا رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے بہت خوبصورت منظر کشی کی ہے مرد مومن کی۔ اپنے شعر میں فرماتے ہیں نشان مرد مومن باتو گویم چوں مرگ آید تبسم برلب اوست مطلب کہ مرد مومن موت کو مسکراہٹ سے قبول کرتا ہے۔ ایک مرد مومن کامیاب انسان ہوتا ہے نہ تو وہ تکالیف میں پریشان ہوتا ہے اور نہ ہی نعمتوں اور برکتوں پر خوشی سے بےقابو ہوجاتا ہے بلکہ ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور یوں وہ کامیاب انسان خوف اور غم سے بالکل آزاد ہو کر راہ مستقیم (سیدھے راستے) پر دوڑتا چلا جاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ” نہ تو ان پر خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں۔ “ پھر فرمایا : ” اے نفس مطمئن ! واپس چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی، پس شامل ہوجا میرے بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں۔ (سورۃ الفجر آیات : 30 - 27 ) اللہ جل شانہٗ اپنے پیارے نبی محمد ﷺ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ تو اپنے کام میں مرد کامل کی طرح لگے رہیں کفار اور شیاطین کی چالوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں یہ تو ہماری مصلحت ہے کہ نیکی کے ساتھ بدی اور فرشتے کے ساتھ شیطان کو بھی انسان کے ساتھ لگا رکھا ہے۔ جیت تو حق کی ہی ہوگی۔ اور دنیا نے تو ختم ہی ہوجانا ہے اور میدان حشر میں نیکی و بدی حق و باطل کا پورا پورا فرق سب کے سامنے آجانا ہے۔ یہ سب انتظام اور یہ سب تخلیقات اس عظیم و کبیر رب العلمین کی ہیں اور وہ ” سب کچھ پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے۔ “ (آیت :86 ) دعا یہ ہے،” اے میرے رب ! مجھے خوبی کے ساتھ پہنچا دے اور خوبی کے ساتھ نکال لے اور مجھے اپنی طرف سے ایسا غلبہ عطا کر جس کے ساتھ نصرت (فتح) ہو۔ (بنی اسرائیل، آیت 80)
Top