Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 85
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْنَا : پیدا کیا ہم نے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَآ : ان کے درمیان اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک السَّاعَةَ : قیامت لَاٰتِيَةٌ : ضرور آنیوالی فَاصْفَحِ : پس درگزر کرو الصَّفْحَ : درگزر کرنا الْجَمِيْلَ : اچھا
اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے غایت کے ساتھ ہی پیدا کیا، بیشک قیامت آنے والی ہے، آپ ان سے خوبصورتی سے درگزر کریں۔
وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَآ اِلاَّ بِالْحَقِّ ط وَ اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰ تِیَۃٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ ۔ (سورۃ الحجر : 85) (اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے غایت کے ساتھ ہی پیدا کیا، بیشک قیامت آنے والی ہے، آپ ان سے خوبصورتی سے درگزر کریں۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی اب یہاں سے نبی کریم ﷺ کی طرف براہ راست التفات ہے۔ یہ خاتمہ سورة کی آیات ہیں۔ اس کی تمہید یوں اٹھائی جارہی ہے کہ ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اس کے درمیان ہے اس کو بےمقصد اور بےغایت پیدا نہیں کیا۔ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل نہیں کہ اس نے محض تفریح کے لیے یہ کائنات پیدا کی ہو اور تفریح کے مکمل ہوجانے کے بعد اسے توڑ پھوڑ کر پھینک دے گا۔ یہ کسی بچے کا بنایا ہوا گھروندا نہیں کہ جیسے ہی اس کا دل بھر جاتا ہے وہ گھروندا توڑ دیتا ہے۔ یہ تو ایک حکیم ذات کا بنایا ہوا کارخانہ ہے جس نے ہر چیز کو احسن طریق سے پیدا فرمایا اور اس کا کوئی نہ کوئی مقصد متعین فرمایا۔ ہم اپنے گردوپیش میں عناصرِ قدرت اور عناصرِ فطرت کو کام کرتا ہوا دیکھتے ہیں، کوئی عنصر ایسا نہیں جس کے فرائض متعین نہ ہوں، جس کی حرکت کی کوئی جہت نہ ہو، جو اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند نہ ہو اور کوئی عنصر دوسرے عنصر کے کام میں دخل نہیں دیتا۔ ہر طرف خالق کائنات کی اطاعت نے ایک نظم و نسق، ایک ترتیب اور یکسانی و یک رنگی پیدا کر رکھی ہے اور یہ تمام عناصر کہیں الگ الگ اور کہیں مل کر کسی نہ کسی مقصد کی تعمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ کائنات کی مقصد کے ساتھ یہ یکسانی اور یک رنگی اور خالق کائنات کے عائد کردہ فرائض کی تعمیل سے یہ بات بتانا مقصود ہے کہ انسان تو اس کائنات کا گل سرسبد ہے، اس کے سر پر خلافتِ ارضی کا تاج رکھا گیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو اور وہ یونہی بےہنگم زندگی گزار کر دنیا سے واپس چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی زندگی کا بھی ایک مقصد ہے جسے واضح اور برپا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے نبی ( علیہ السلام) تشریف لاتے ہیں۔ وہ مسلسل انھیں اس مقصد کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں دکھ اٹھاتے ہیں لیکن ان کے مقصد سے انھیں آگاہ کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ لیکن جب لوگ پیغمبر ( علیہ السلام) کی تبلیغ و دعوت کے نتیجے کو قبول کرنے کی بجائے اس کی دشمنی پر تل جاتے ہیں اور اسی کو اذیتیں پہنچانا شروع کردیتے ہیں تو اب ضابطے کے طور پر تو ضروری ہوجاتا ہے کہ انھیں سزا دی جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ چونکہ اپنی رحمت سے انھیں اس وقت تک ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے جب تک ان میں ایک آدمی بھی اس قابل رہتا ہے کہ اس سے حق کی قبولیت کی امید کی جائے۔ رہی ان کی اذیتیں اور ان کی گستاخیاں تو اس کے لیے اپنے پیغمبر کو پروردگار برابر درگزر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ جب تبلیغ و دعوت اس مرحلے تک پہنچتی ہے کہ ایک طرف کفر پیغمبر کے مقابلے میں اپنے سارے تیر آزما ڈالنا چاہتا ہے اور دوسری طرف اہل حق ان کی اذیت رسانیوں کے باعث مظلومیت کی آخرت حد کو پہنچ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پھر بھی عذاب بھیجنے میں جلدی نہیں کرتا، وہ اپنے پیغمبر کو یہ کہہ کر تسلی دیتا ہے کہ ہم نے اس کائنات کو بےمقصد پیدا نہیں کیا، یہاں ہر کام کرنے والے کی محنت کا صلہ ہے اور ہر بدچلن اور مفسد کی بداعمالیوں کی سزا ہے۔ لیکن اس کے لیے دنیا میں ہم جلد بازی نہیں کرتے، ہم ڈھیل دیتے ہیں۔ لیکن آخرت میں ہر ایک کو اپنے اعمال کی پاداش بھگتنا ہوگی۔ آخرت اس دنیا کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ یہاں کے خیر و شر کا لازمی نتیجہ ہے۔ اس لیے آپ ان کی اذیت رسانیوں کے مقابلے میں انتہائی شریفانہ درگزر سے کام لیجئے۔ اور اس بات کا ایمان لانے والوں کو یقین دلایئے کہ مقصد حق کا تقاضا یہ ہے کہ لوگ اپنے انکار کی پاداش میں عذاب کا شکار ہوں گے چاہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے عذاب نازل کیا جائے اور چاہے مسلمانوں کے ہاتھوں ان کا خاتمہ کرا دیا جائے۔
Top