Anwar-ul-Bayan - Al-Hijr : 90
كَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِیْنَۙ
كَمَآ : جیسے اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کیا عَلَي : پر الْمُقْتَسِمِيْنَ : تقسیم کرنے والے
'' جیسا کہ ہم نے ان لوگوں پر نازل کیا
سابقہ امتوں نے اپنی کتابوں کے اجزاء بنا رکھے تھے امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والتحیۃ سے پہلے جو امتیں گزری ہیں ان پر بھی اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آسمانی کتابیں نازل فرمائی تھیں ان لوگوں نے ان کے مختلف اجزاء کرلیے تھے یعنی بعض پر ایمان لاتے تھے بعض کے منکر ہوجاتے تھے اور ان میں تحریف و تبدیل بھی کرتے تھے ان تقسیم کرنے والوں کو (الْمُقْتَسِمِیْنَ ) سے تعبیر فرمایا اور جو کتابیں ان پر نازل ہوئی تھیں ان کو قرآن سے تعبیر کیا لفظ قرآن فعلان کا وزن ہے جو قَرَءَ یَقْرَءَ سے ماخوذ ہے ہر وہ چیز جو پڑھی جائے وہ قرآن ہے یہ اس کا لغوی معنی ہے اور امت حاضر کی اصطلاح میں لفظ قرآن اللہ تعالیٰ کی اس کتاب کا علم ہے یعنی مخصوص نام ہے جو سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی، آیت کا مطلب بعض مفسرین نے یہ بتایا ہے کہ جس طرح ہم نے گزشتہ زمانہ میں ان لوگوں پر عذاب نازل کیا جنہوں نے احکام الٰہیہ کے حصے کر رکھے تھے یعنی آسمانی کتابوں کے مختلف اجزاء قرار دئیے تھے، اسی طرح سے اس زمانے کے مکذبین پر بھی عذاب نازل ہوسکتا ہے، قال صاحب معالم التنزیل ص 58 ج 3 جزؤہ فجعلوہ جزءً فامنوا ببعضہ وکفروا ببعضہ وقال مجاھدھم الیھود والنصاریٰ قسموا کتابھم ففرقوہ وبدلوہ 1 ھ کہ انہوں نے کتاب اللہ کو حصوں میں تقسیم کردیا اور بعض حصوں پر ایمان لائے اور بعض کا انکار کردیا اور مجاہد کہتے ہیں وہ یہود و نصاریٰ ہیں۔ جنہوں نے اپنی کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور اسے تقسیم کیا اور تبدیل کیا۔ صحیح بخاری ص 684 ج 2 میں حضرت ابن عباس ؓ سے مذکورہ بالا تفسیر یوں نقل کی ہے قال امنوا ببعض وکفروا ببعض الیھود والنصاریٰ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ مکہ مکرمہ میں سولہ مشرکین نے یہ مشورہ کیا کہ حج کے دنوں میں مکہ معظمہ کے راستوں پر بیٹھ جائیں اور مکہ معظمہ کی گھاٹیوں اور راستوں کو تقسیم کرلیں جس شخص کی طرف سے بھی آنے والے گزریں وہ ان سے یوں کہے کہ اہل مکہ میں سے جو شخص مدعی نبوت نکلا ہے اس کے دھوکہ میں نہ آنا کوئی شخص یوں کہے کہ یہ شخص دیوانہ ہے اور کوئی شخص یوں کہے کہ یہ شخص کاہن ہے اور کوئی شخص یوں کہے کہ یہ شاعر ہے (العیاذ باللہ) چناچہ ان لوگوں نے ایسا کیا اس قول کی بناء پر انزلنا جو ماضی کا صیغہ ہے مضارع کے معنی میں ہوگا اور مطلب یہ ہے کہ مکہ کے راستے کی گھاٹیاں تقسیم کرنے والے اور ان پر بیٹھنے والے ہلاک ہوں گے چناچہ یہ لوگ غزوہ بدر میں مقتول ہوگئے اس تفسیر کی بنا پر (الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ ) کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے قرآن کریم کو اس طرح بانٹ لیا کہ اس کے بارے میں بطور تکذیب مختلف قسم کی باتیں کہتے تھے کوئی کہتا تھا کہ یہ سحر ہے اور کسی کا کہنا تھا کہ یہ شعر ہے اور بعض نے یوں کہا کہ یہ کذب ہے اور بعض نے اسے (اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ) بتایا اس صورت میں قرآن سے قرآن مجید ہی مراد ہوگا اور کتب سابقہ مراد لینے کی ضرورت نہ ہوگی۔
Top