Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 90
كَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِیْنَۙ
كَمَآ : جیسے اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کیا عَلَي : پر الْمُقْتَسِمِيْنَ : تقسیم کرنے والے
جس طرح ان لوگوں پر نازل کیا تھا جنہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے
90۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح آپ ﷺ سے پہلے لوگوں پر دین کی باتیں نازل کیں لیکن انہوں نے ان باتوں کو ٹکڑ ٹکڑے کردیا اور آسمانی کتابوں پر دل کھول کر تحریف کی اب اس تحریف کو مٹانے اور ختم کرنے کیلئے آپ پر بھی قرآن کریم نازل کر رہے ہیں تاکہ اس قرآن کریم میں جو ان لوگوں نے سابقہ کتب میں تحریف کی ہے اس کی وضاحت کردی جائے اور اس کی کھلی تردید کردیں ۔ ” المقتسمین “۔ قسم سے ہے اور قسم کے معنی تقسیم کیا ، اس سے قسمۃ جیسا کہ ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” اذا حضر القسمۃ “۔ (النساء : 4 : 8) اس جگہ مقسمین سے امام راغب (رح) نے وہ لوگ مراد لئے ہیں جنہوں نے مکہ کی گھاٹیوں میں ایک دوسرے قسمیں کھائی تھیں جیسے نقاسم القوم کے معنی ہی سب لوگوں نے آپس میں مل کر قسمیں کھائیں ، یہ قسمیں ان لوگوں نے کس بات پر کھائی تھیں ؟ اس بات پر کہ الگ الگ راستوں پر بیٹھیں گے اور جو لوگ نبی کریم ﷺ کو ملنے اور آپ سے دین کی باتیں سیکھنے کیلئے آتے ہیں ان کو منع کریں گے اور روکیں گے ۔ کہا گیا کہ یہ سولہ آدمی تھے جنہیں ولید بن مغیرہ نے حج کے دنوں میں مکہ کے مختلف راستوں اور گھاٹیوں پر مقرر کیا تھا جن کا کام یہ تھا کہ ہر آنے والے کو وہ نبی کریم ﷺ کے متعلق بدظن کرتے تھے اور انہیں کہتے تھے کہ خبردار اس شخص کے فریب میں نہ آنا جس نے ہم میں سے نبوت کا دعوی کیا ہے ۔ کبھی کہتے کہ وہ مجنون ہے کبھی کہتے وہ بڑا جادوگر ہے اور کبھی شاعر اور کاہن بتلاتے اور لوگوں کو کہتے کہ اگر ہماری باتوں پر اعتماد نہ ہو تو ولید بن مغیرہ سے پوچھ لینا جو مکہ کا سردار ہے اور ولید خود مسجد حرام کے دروازے پر بیٹھ جاتا اور لوگ جب اس سے دریافت کرتے تو وہ طے شدہ منصوبے کے مطابق ان لوگوں کی زور دار تائید کرتا جو راستوں پر مقرر کئے گئے تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو رسواکن عذاب میں مبتلا فرما کر موت سے دوچار کیا ۔ ان لوگوں کو ” مقطسمین “ اس لئے کہا گیا کہ انہوں نے راستے آپس میں بانٹ لئے تھے اور ہر شخص اپنے مقررہ راستہ پر بیٹھ کر نبی کریم ﷺ کلا اتف زہر افشانی کرتا اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے قرآن کریم کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے کسی حصے کو مان لیا اور کسی کا انکار کردیا اور یہ کام اہل کتاب تو کرتے ہی تھے اس لئے کہ انہوں نے اپنی کتابوں کے ساتھ بھی ایسا کیا ہے اور قرآن کریم کے متعلق بھی انکی روشن رہی ہے کہ جس کو چاہا مان لیا اور جس کو چاہا انکار کردیا اور علاوہ ازیں بھی اس آیت کے متعلق بہت کچھ بیان کیا گیا ہے اور یہ تقسیم کا کام ابھی تک جاری ہے خصوصا مختلف حصوں اور گروپوں میں تقسیم ہو کر اس بیماری کا شکار لوگ ہیں کہ جس کے متعلق وہ جو چاہتے ہیں بیان کردیتے ہیں صرف یہ خیال کرتے ہیں ایسا بیان کرنے والے سابق لوگوں میں موجود تھے یا نہیں اگر ان کو سابق لوگوں کی سند ہاتھ آگئی تو بس اب انکے دل یقین پاگئے کہ قرآن کریم میں یہ مضمون ایسے ہی بیان ہوا اگرچہ قرآن کریم دوسری جگہ خود ہی اس کی تردید کررہا ہو وہ قطعا اس بات کی پروا نہ کریں گے جیسا کہ قبل ازیں عرض کیا گیا تھا کہ اس سورت کے مطابق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مکی ہے اور بعض اس کو مدنی قرار دیتے ہیں ، اگر یہ آیات مدنی ہوں تو پھر تو کوئی اشکال موجود ہی نہیں رہتا کیونکہ منکروں کا جو حال ہوا وہ سب کے سامنے ہے لیکن اگر یہ آیات مکی ہیں تو پھر گویا یہ مضمون بطور پیش گوئی بیان کیا گیا ہوگا ۔
Top