Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 112
بَلٰى١ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١۪ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۠   ۧ
بَلٰى : کیوں نہیں مَنْ : جس اَسْلَمَ : جھکادیا وَجْهَهٗ : اپنا چہرہ لِلّٰہِ : اللہ کے لئے وَهُوْ : اور وہ مُحْسِنٌ : نیکوکار فَلَهٗٓ : تو اس کے لئے اَجْرُهُ ۔ عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کا اجر۔ اپنے رب کے پاس وَلَا : اور نہ خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
یوں نہیں جو وہ کہتے ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جس نے اپنا رخ اللہ کی طرف جھکا دیا اور وہ نیک روش کا پابند بھی رہا تو ایسے شخص کو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ملتا ہے اور ایسے لوگوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے2
2 اور یہ یہود و نصاریٰ یوں کہتے ہیں کہ جنت میں ہرگز کوئی شخص سوائے ان لوگوں کے جو یہود ہوئے یا سوائے ان لوگوں کے جو نصاریٰ ہوئے داخل نہ ہو سکے گا یہ ان کی باتیں ہی باتیں ہیں جو دلیل سے خالی ہیں آپ ان سے فرمائیے اگر تم لوگ اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو اس دعویٰ پر دلیل پیش کرو واقعہ یہ ہے کہ دوسرے لوگ ضرور جنت میں جائینگے کیونکہ آئین اور قاعدہ یہ ہے کہ جو شخص اپنا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکا دے اور وہ خلوص کے ساتھ نیک روش کا پابند ہے تو ایسے لوگوں کا اجر وثواب ان کے مالک کے پاس موجود و محفوظ ہے اور ایسے لوگوں پر نہ کسی قسم کا خوف اندیشہ ہے اور نہ وہ کبھی غمگین ہونگے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ یہودی تو الگ اس کے مدعی ہیں کہ ہمارے سوا کوئی جنت میں نہ جانے پائے گا اور نصاریٰ الگ اس کے مدعی ہیں کہ ہمارے سوا اور کوئی نہیں جائے گا تو گویا جنت بس ان دونوں کے حصہ میں آگئی کہ یا فقط یہود جائیں گے یا صرف نصاریٰ جائیں گے چونکہ دونوں کا یہ دعویٰ اپنی اپنی جگہ بلا دلیل و سند کے ہے اس لئے دلیل کا مطالبہ فرمایا امانی امنیۃ کی جمع ہے جس کے معنی خواہش اور تمنا کے ہیں عرب امانی ایسے کلام پر بولا کرتے ہیں جو عاری عن الدلیل ہو آگے ضابطہ فرما دیا کہ جنت ایسی چیز نہیں جو کسی خاص فرقہ کا حصہ ہو بلکہ ہمارا قانون یہ ہے کہ جو دل سے مسلمان ہو اور نیکیوں کا پابند رہے تو اس کو اس کے رب کے پاس اجر ملتا ہے۔ اسلم وجھہ للہ کا مطلب یہ ہے کہ جس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا اور سالم اللہ تعالیٰ ہی کا ہوگیا۔ جیسے فرمایا رجلا سلما لرجل یعنی ایک شئے اس طور پر کسی کی کردی جائے کہ دوسرا کوئی اس میں شریک نہ ہو ہرچند کہ وجھہہ کے معنی چہرے کے ہیں لیکن وجہ بول کر ذات مراد لیا کرتے ہیں۔ ہم نے ترجمہ میں دونوں کی رعایت کی ہے مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے کردیا اور فرمانبرداری اور اطاعت گذاری کے لئے اس کے قدموں پر منہ رکھ دیا۔ قرآن میں یہ کلمات چند جگہ آئے ہیں اردو میں ایسا کوئی ایک لفظ ہم کو نہیں مل سکا جس سے اس کا ترجمہ کیا جائے۔ احسان کے معنی نبی کریم ﷺ نے ان تعبداللہ کانک تراۃ سے کئے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اس طور پر عبادت کیا کہ گویا تو اس کو دیکھ رہا ہے مراد اخلاص ہے خلاصہ یہ ہے کہ جس کا اعتقاد پختہ ہوگا اور اس کے اعمال میں اخلاص ہوگا وہی اللہ تعالیٰ کے دربار میں اجر وثواب پائے گا اور ہر قسم کے خون و حزن سے مامون رہے گا جنت کسی خاص شخص یا خاص فرقہ کی میراث نہیں ہے کہ اس کو ملے دوسرے کو نہ ملے۔ (تسہیل)
Top