Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 9
یٰمُوْسٰۤى اِنَّهٗۤ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُۙ
يٰمُوْسٰٓي : اے موسیٰ اِنَّهٗٓ : حقیقت یہ اَنَا اللّٰهُ : میں اللہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اے موسیٰ بیشک بات یہ ہے کہ میں اللہ ہوں عزیز ہوں حکیم ہوں،
مبارک ہونے کی بشارت کے بعد اللہ پاک کا مزید خطاب ہوا اور فرمایا (یٰمُوْسٰی اِِنَّہٗٓ اَنَا اللّٰہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) کہ اے موسیٰ بیشک میں اللہ ہوں عزیز ہوں حکیم ہوں۔ اس کے بعد لاٹھی کے بارے میں سوال و جواب ہوا جو موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ میں تھی، پھر اس لاٹھی کے ڈالنے کا حکم فرمایا جب انہوں نے لاٹھی کو ڈال دیا تو وہ اژدھا بن گئی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ وہ سانپ کی طرح سے ہے اور اس کی حرکت ہو رہی ہے یہ حال دیکھ کر وہ پچھلے پاؤں لوٹے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا یہ خوف طبعی تھا جس کا اس وقت مظاہرہ ہوا، اللہ پاک کا ارشاد ہوا کہ اسے پکڑ لو ڈرو نہیں ہم اس کو پہلی حالت پر لوٹا دیں گے اور یہ بھی فرمایا کہ (اِِنِّیْ لاَ یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ ) (میرے حضور میں پیغمبر نہیں ڈرا کرتے) لہٰذا تم ڈرو نہیں میری طرف سے تمہاری حفاظت ہوگی۔ بظاہر اس سے پہلے انہیں نبوت اور رسالت سے نوازنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ہم کلامی ہی رسالت عطا فرمانے کے قائم مقام ہوگئی جیسا کہ جبرائیل امین (علیہ السلام) نے خاتم النّبیین ﷺ کو غار حرا میں سورة العلق کی ابتدائی پانچ آیات سنا دیں اور اسی سے آپ کے پیغمبر ہونے کی ابتدائی خبر دی گئی، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ (اِِنِّیْ لاَ یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ ) میں دونوں باتیں بیان فرما دیں اول رسالت کا اعلان فرمایا، دوم رسولوں کی ایک صفت خاص فرما دی اور وہ یہ کہ اللہ کے رسول، اللہ کے حضور میں کسی مخلوق سے نہیں ڈرتے قال صاحب الروح و التقید بلدی لان المرسلین فی سائر الاحیان اخوف الناس من اللہ عزوجل۔
Top