Mafhoom-ul-Quran - Al-Anfaal : 20
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اَطِيْعُوا : حکم مانو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَلَا تَوَلَّوْا : اور مت پھرو عَنْهُ : اس سے وَاَنْتُمْ : اور جبکہ تم تَسْمَعُوْنَ : سنتے ہو
اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور اس سے مت پھرو۔
اطاعت الٰہی ہی اصل زندگی ہے تشریح : جیسا کہ بدر کے واقعہ سے بیشمار سبق دیئے گئے ہیں اسی طرح پھر یہاں دہرایا جا رہا ہے کہ مشرکین کی شکست کی وجہ صرف اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی تھی، لہٰذا مسلمانوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ اپنی اس فتح کو اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سمجھیں جو انہیں ایمان اور فرمانبرداری کے بدلے میں دی گئی ہے۔ ، اس لیے ایمان پر قائم رہیں۔ دوسرا یہ کہ کبھی اس راستے سے ہٹیں نہیں، پھر تاکیداً کہا جا رہا ہے تمام امت مسلمہ کو کہ سننے کے بھی چار درجات ہیں۔ -1 صرف سن لیا عمل نہ کیا۔ -2 کانوں سے سنا اور سمجھا مگر اعتقاد نہ کیا۔ -3 سنا، سمجھا ایمان بھی لائے مگر عمل نہ کیا۔ -4 سنا، سمجھا، ایمان لائے اور عمل بھی کیا۔ یہ آخری درجہ مومن کی صفت میں آتا ہے، پھر اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کی طرح ہرگز نہ ہوجانا جو نہ سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں اور نہ عمل ہی کرتے ہیں تو ایسے لوگ مشرک، منافق اور کفا رکے درجے میں آتے ہیں۔ ان کے پاس کان ہوتے ہیں مگر نیکی کی بات سننا پسند نہیں کرتے، یعنی یہ لوگ بالکل جانوروں کے برابر ہوتے ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہوجاتے ہیں کیونکہ جانوروں کو تو عقل سلیم سے اللہ نے محروم رکھا ہے جبکہ انسان کو احسن تقویم کہا گیا ہے اور پھر انسان کو علم و حکمت عطا کرکے فرشتوں سے بھی بلند درجہ دیا گیا ہے مگر اس میں بھی شرط یہی ہے کہ جو انسان اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول ﷺ اختیار کرتا ہے قرآن کو غور سے سنتا ہے سمجھتا ہے عمل کرتا ہے اور دوسروں کو عمل کی ترغیب دیتا ہے۔ اور جو انسان ان تمام صفات سے خالی ہوتا ہے تو وہ پھر سب سے بدترین درجہ میں چلا جاتا ہے۔ حیوانوں سے بھی بدترین درجہ اس کا ہوجاتا ہے فرمایا : ” ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ “ پھر ہم اسے ذلیل ترین مخلوق بنا دیا۔ ( التین آیت : 5) ایسے ہی لوگ اللہ کی رحمتوں، برکتوں، فضل و کرم اور مہربانیوں سے دور ہوجاتے ہیں۔ بظاہر دنیاوی نعمتوں سے مالا مال ہو بھی جائیں تو دلی سکون ان کو ہرگز نہیں ملتا۔ دنیا میں بےسکونی کی زندگی گزارتے ہیں اور آخرت میں تو انہیں بہت ہی برا ٹھکانا ملے گا۔ ایسے لوگ ایمان کے نور سے دور ہوتے ہیں۔ ان کو زبردستی ایمان کی طرف بلائو، پھر بھی وہ اپنی ضد پر ہی قائم رہتے ہیں تو پھر اللہ بھی گمراہی کے راستے ہی ان کے لیے آسان کردیتا ہے پھر دوبارہ مومنین کو مخاطب کیا جا رہا ہے کہ اپنے ایمان کے نور کی حفاظت کرو۔ اس کو اطاعت الٰہی و اطاعت رسول سے مضبوط کرو اور دنیا و آخرت میں بھلائیاں حاصل کرو۔ نیک کام جو بھی تمہارے سامنے آئے فورا کر ڈالو۔ نیکی کے کام میں کبھی دیر نہ کرو۔ کیونکہ اللہ قادر مطلق ہے انسان کا ہر لمحہ اس کی نگرانی میں ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے : ” یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ “ ” اے دلوں کے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت اور قائم رکھنا۔ “ (معارف القرآن) ایمان ایک مظبوط رسی ہے جس نے انسان کو اللہ کے ساتھ جوڑ رکھا ہے جو اس رسی کو تقویٰ اور اطاعت رسول ﷺ سے مضبوط کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے وہ اللہ کے فضل و کرم سے بھرپور اور کامیاب زندگی گزارتا ہے ہر وقت موت، قیامت اور قیامت کے بعد زندگی بھرکے حساب کتاب کو یاد رکھو۔ دن رات ہمارے سامنے لوگ مرتے ہیں اور قرآن پاک میں بیشمار دفعہ اس دن کا ذکر کیا گیا ہے جو ہمارے لیے راز ہے ہماری آنکھوں سے بظاہر پوشیدہ ہے مگر بصیرت علم و عرفان کی آنکھوں سے اور قرآن کی ہدایات سے اس دن کو جو حساب کتاب کا دن ہے بڑی صفائی سے دیکھ رہے ہیں اللہ فرماتا ہے : ” مگر جب اللہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں سرکشی کرنے لگتے ہیں۔ اے لوگو ! تمہاری اس سرکشی کا وبال تم ہی کو بھگتنا ہوگا۔ دنیا کے چند روزہ مزے ہیں، پھر ہماری ہی طرف پلٹ کر تم کو آنا ہے۔ اس وقت ہم تمہیں بتا دیں گے جو کچھ تم کرتے رہتے تھے۔ “ ( یونس آیت : 23 ) سورة ہود کی آیت 34 میں اللہ فرماتا ہے۔ ” وہ تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔ “ پیغمبر سچی خبر دینے والا ہے۔ قرآن سچی کتاب ہے اور پیغمبر کا دل روحانی بلندیوں کا حامل ہوتا ہے۔ وہ حق دیکھتا ہے، حق کہتا ہے اور سچ باتوں کی خبر پیغمبر کے ذریعے دی گئی ہے وہ اٹل اور یقینی ہے، پھر سورة البقرہ کی آیت نمبر 2 میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں۔ یہ کتاب قرآن مجید اس میں کچھ شک نہیں کہ کلام الٰہی ہے اور ( اللہ سے) ڈرنے والوں کی رہنما ہے “۔ اللہ رب العالمین ہمیں سب کو شک و شبہ سے بچا کر ایمان کامل کی توفیق دے کر سرخرو کرے۔ آمین۔
Top