Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 24
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١۪ وَّ غَرَّهُمْ فِیْ دِیْنِهِمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ قَالُوْا : کہتے ہیں لَنْ تَمَسَّنَا : ہمیں ہرگز نہ چھوئے گی النَّارُ : آگ اِلَّآ : مگر اَيَّامًا : چند دن مَّعْدُوْدٰت : گنتی کے وَغَرَّھُمْ : اور انہٰں دھوکہ میں ڈالدیا فِيْ : میں دِيْنِهِمْ : ان کا دین مَّا : جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ گھڑتے تھے
یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا کہ ہرگز ہمیں آگ نہ چھوئے گی مگر چند گنے چنے دنوں میں، اور ان کو دھوکے میں ڈال دیا ان کے دین کے بارے میں اس چیز نے جس کو وہ افترا کرتے تھے
(وَ غَرَّھُمْ فِیْ دِیْنِھِمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی ایسی سند نہیں جس میں اس کا وعدہ ہو کہ چند دن کے بعد وہ دوزخ سے نکل آئیں گے انہیں معلوم ہے کہ دین حق کا انکار کفر ہے اور کفر کا عذاب دائمی ہے۔ پھر بھی اوہام و خیالات اور افترات کی دنیا میں مستغرق ہیں ان کی خوش فہمیوں میں یہ بھی تھا کہ ہم انبیاء کرام کی اولاد ہیں وہ ہمیں بخشوا لیں گے، یہ بھی کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے یعقوب (علیہ السلام) سے وعدہ فرمایا ہے کہ ان کے بیٹوں کو عذاب نہیں دے گا۔ بس اتنا ہوگا کہ دوزخ سے عبور کریں گے اور یہ بھی کہتے تھے کہ (نَحْنُ اَبْنَآء اللّٰہِ وَ اَحِبَّآءُ ہٗ ) کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اسی کے محبوب ہیں۔ یہ سب خام خیالیاں ان کو لے ڈوبیں گی۔ (من روح المعانی صفحہ 111: ج 3)
Top