Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 73
وَ لَا تُؤْمِنُوْۤا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَكُمْ١ؕ قُلْ اِنَّ الْهُدٰى هُدَى اللّٰهِ١ۙ اَنْ یُّؤْتٰۤى اَحَدٌ مِّثْلَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ اَوْ یُحَآجُّوْكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ١ؕ قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ١ۚ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۚۙ
وَلَا : اور نہ تُؤْمِنُوْٓا : مانو تم اِلَّا : سوائے لِمَنْ : اس کی جو تَبِعَ : پیروی کرے دِيْنَكُمْ : تمہارا دین قُلْ : کہ دیں اِنَّ : بیشک الْهُدٰى : ہدایت ھُدَى : ہدایت اللّٰهِ : اللہ اَنْ : کہ يُّؤْتٰٓى : دیا گیا اَحَدٌ : کسی کو مِّثْلَ : جیسا مَآ : کچھ اُوْتِيْتُمْ : تمہیں دیا گیا اَوْ : یا يُحَآجُّوْكُمْ : وہ حجت کریں تم سے عِنْدَ : سامنے رَبِّكُمْ : تمہارا رب قُلْ : کہ دیں اِنَّ : بیشک الْفَضْلَ : فضل بِيَدِ اللّٰهِ : اللہ کے ہاتھ میں يُؤْتِيْهِ : وہ دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اقرار مت کرنا مگر ایسے شخص کے سامنے جو تمہارے دین کا تابع ہو۔ آپ فرما دیجیے کہ بلاشبہ ہدایت وہی ہے جو اللہ کی ہدایت ہے یہ باتیں تم اس لیے کرتے ہو کہ کسی دوسرے کو ایسی چیز مل رہی ہے جو تمہیں دی گئی یا اس لیے کہ وہ تم پر دلیل میں غالب ہوجائیں گے تمہارے رب کے پاس۔ آپ فرما دیجیے کہ بلاشبہ فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ اسے عطا فرماتا ہے جسے چاہے اور اللہ واسع ہے خوب جاننے والا ہے۔
اس کے بعد یہودیوں کی ایک اور بات کا تذکرہ فرمایا اور وہ یہ کہ انہوں نے آپس میں یوں کہا (وَ لَا تُؤْمِنُوْٓا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَکُمْ ) کہ تمہارا جو دین یہودیت ہے اس دین پر مضبوطی کے ساتھ جمنے کا اقرار ان ہی لوگوں کے سامنے کرنا جو تمہارے دین کے تابع ہیں۔ یعنی اپنا اندرونی عقیدہ اپنے ہی لوگوں کے سامنے بیان کرنا۔ اور مسلمانوں کو دین اسلام سے پھیر نے کے لیے اوپر اوپر سے یہ کہہ دینا کہ ہم نے تمہارا دین قبول کرلیا (اندر سے اپنے عقیدہ پر رہنا) پھر ظاہری طور پر بھی یوں کہہ دینا کہ ہم اپنے دین پر واپس آگئے حالانکہ دل سے انہوں نے اپنا دین چھوڑا ہی نہیں تھا۔ یہ ان کا مکر تھا۔ اور بعض مفسرین نے (وَ لَا تُؤْمِنُوْٓا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَکُمْ ) کا مطلب یہ بتایا ہے کہ تم صرف اسی شخص پر ایمان لاؤ جو تمہارے دین کی موافقت کرتا ہو کمافی معالم التنزیل ای ولا تصدقوا الا لمن تبع دینکم ای وافق ملتکم (جس کا معنی یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ چونکہ نئی شریعت لے کر آئے ہیں اور وہ تمہاری شریعت کے موافق نہیں ہے اس لیے تم ان پر ایمان نہ لاؤ) اللہ جل شانہٗ نے فرمایا : ( قُلْ اِنَّ الْھُدٰی ھُدَی اللّٰہِ ) کہ اے محمد ﷺ آپ فرما دیں کہ بلاشبہ ہدایت اللہ ہی کی ہدایت ہے وہ جسے ہدایت دینا چاہے اور ہدایت پر رکھنا چاہے اسے کسی کی تدیبر ہدایت سے نہیں روک سکتی یہ معنی پہلی تفسیر کے مطابق ہے اور دوسری تفسیر کے مطابق اس کا یہ معنی ہوگا کہ اللہ کو اختیار ہے کہ اپنی بھیجی ہوئی ایک شریعت کو منسوخ کر دے اور اس کی جگہ دوسری شریعت بھیج دے اور اس پر عمل کرنے کا حکم فرما دے جب اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ دوسری شریعت بھیج دی تو اسے قبول کرلو اگر اس کے خلاف چلو گے تو برابر کفر کی گمراہی میں رہو گے قولہ تعالیٰ (اَنْ یُّؤْتٰٓی اَحَدٌ مِّثْلَ مَآ اُوْتِیْتُمْ ) اس میں بھی یہودیوں کی ایک بات کا تذکرہ فرمایا ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے آپس میں کہا کہ تم کبھی یہ تصدیق نہ کرنا کہ تم کو جو علم اور کتاب اور حکمت دی گئی ہے اس جیسی کسی اور کو بھی عطا کی گئی ہو، علم اور کتاب اور حکمت یہ صرف ہمارا ہی حصہ ہے، نیز انہوں نے یہ بھی کہا کہ تم اس بات کی تصدیق نہ کرنا کہ تمہارے رب کے پاس دوسرے لوگ حجت میں تم پر غالب آجائیں گے۔ کیونکہ تمہارا ہی دین صحیح ہے اس صورت میں (اَنْ یُّؤْتٰٓی) سے پہلے ایک (وَ لَا تُؤْمِنُوْا) مقدر ماننا ہوگا صاحب بیان القرآن نے (اَنْ یُّؤْتٰٓی اَحَدٌ مِّثْلَ مَآ اُوْتِیْتُمْ ) کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ اے یہودیو ! تم ایسی باتیں اس لیے کرتے ہو کہ تمہیں مسلمانوں پر حسد ہے کہ انہیں آسمانی کتاب کیوں مل گئی یا یہ لوگ تم پر مذہبی مناظرہ میں کیوں غالب آجاتے ہیں اس حسد کی وجہ سے اسلام اور اہل اسلام کے تنزل کی کوششیں کرتے ہو اس صورت میں (اَنْ یُّؤْتٰٓی) سے پہلے تدبر تم یا قلتم مقدر ماننے کی ضرورت ہوگی۔ آخر میں یہودیوں کی تردید فرمائی اور ارشاد فرمایا : (قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ ) (الآیۃ) آپ فرما دیجیے کہ بلاشبہ فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہے عطا فرما دے، وہ بڑی وسعت والا ہے بڑے علم والا ہے، وہ اپنی رحمت کے ساتھ جس کو مخصوص فرما دے اور وہ بڑے فضل والا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خاتم النّبیین سیدنا محمد عربی ﷺ کو نبوت و رسالت سے نواز دیا اور ان پر کتاب نازل فرما دی اور ان کے ذریعہ ہدایت پھیلا دی اس پر تم حسد کرنا جہالت اور کفر ہے یہ تو اللہ تعالیٰ پر اعتراض ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کے علاوہ کسی دوسرے کو نبی کیوں بنایا۔ یہ عصبیت جاہلیہ اہل علم کو برباد کردیتی ہے، مزید توضیح اور تشریح کے لیے سورة بقرہ (ع 11) میں (بَغَیَا اَنْ یُّنَزِّلَ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ) کی تفسیر پیچھے گزر چکی ہے۔ یہ لوگ عصبیت جاہلیہ کی وجہ سے کفر اختیار کرنے اور کفر پر جمے رہنے اور دائمی عذاب میں پڑنے کو تیار ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے راضی ہونے پر تیار نہیں کہ وہ اپنی رحمت سے جسے چاہے اپنا فضل عطا فرمائے۔ اللہ کی مشیت اور ارادہ میں کسی کو چوں کرنے کا مقام نہیں۔
Top