Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 73
وَ لَا تُؤْمِنُوْۤا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَكُمْ١ؕ قُلْ اِنَّ الْهُدٰى هُدَى اللّٰهِ١ۙ اَنْ یُّؤْتٰۤى اَحَدٌ مِّثْلَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ اَوْ یُحَآجُّوْكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ١ؕ قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ١ۚ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۚۙ
وَلَا : اور نہ تُؤْمِنُوْٓا : مانو تم اِلَّا : سوائے لِمَنْ : اس کی جو تَبِعَ : پیروی کرے دِيْنَكُمْ : تمہارا دین قُلْ : کہ دیں اِنَّ : بیشک الْهُدٰى : ہدایت ھُدَى : ہدایت اللّٰهِ : اللہ اَنْ : کہ يُّؤْتٰٓى : دیا گیا اَحَدٌ : کسی کو مِّثْلَ : جیسا مَآ : کچھ اُوْتِيْتُمْ : تمہیں دیا گیا اَوْ : یا يُحَآجُّوْكُمْ : وہ حجت کریں تم سے عِنْدَ : سامنے رَبِّكُمْ : تمہارا رب قُلْ : کہ دیں اِنَّ : بیشک الْفَضْلَ : فضل بِيَدِ اللّٰهِ : اللہ کے ہاتھ میں يُؤْتِيْهِ : وہ دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور تم اپنے دین کی پیروی کرنے والے کے سوا اور کسی کی بات کا اعتبار نہ کیا کرو۔ ان سے کہو کہ اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے۔ کہ مبادا اس طرح کی چیز کسی اور کو بھی مل جائے جس طرح کی چیز تمہیں ملی ہے یا وہ تم سے تمہارے رب کے حضور حجت کرسکیں۔ ان سے کہو کہ فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑی سمائی رکھنے والا اور علم والا ہے۔
اسلوب کی بعض مشکلات : اس آیت کی تشریح و تفسیر میں ہمارے ارباب تاویل کو بڑا اضطراب پیش آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اسلوب کی بعض مشکلیں ہیں۔ ہم پہلے ان اسلوبوں کی وضاحت کریں گے اس کے بعد آیت کی صحیح تاویل بیان کریں گے۔ اس میں پہلی سمجھنے کی چیز ”قُلْ اِنَّ الْهُدٰى ھُدَى اللّٰهِ : کہہ دو کہ اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے“ کے ٹکڑے کا جملہ کے اندر مقام ہے۔ یہ ٹکڑا در اصل سلسلہ کلام کا جزو نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت ایک جملہ معترضہ کی ہے۔ یعنی سلسلہ کلام کے بیچ میں مخاطب کی ایک غلط بات کی برسر موقع تردید فرما دی گئی ہے۔ اصل سلسلہ کلام یوں ہے کہ ”وَلَا تُؤْمِنُوْٓا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِيْنَكُمْ اَنْ يُّؤْتٰٓى اَحَدٌ“ ، یہود جن لوگوں کو سکھا پڑھا کر مذکورہ بالا سازش کے لیے مسلمانوں کے اندر بھیجتے تھے ان کو پورے اہتمام کے ساتھ یہ تاکید بھی کردیتے تھے کہ مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کرنے کے لیے اسلام کا اظہار تو کرو لیکن بات بہرحال ماننی اپنے لوگوں کی ہے، اپنے دائرہ سے باہر کسی کی بات، ماننا ہمارے لیے جائز نہیں ہے۔ یہ بات چونکہ یہود کی تمام گمراہیوں کی جڑ تھی اس وجہ سے قرآن نے بالکل بر سرِ موقع اس پر ٹوک دیا کہ یہ کیا اندھا بہرا گروہی تعصب ہے جس میں یہ مبتلا ہیں، ان سے کہو کہ اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے جس کی ان کو پیروی کرنی چاہئے، خواہ وہ کسی اسرائیلی پیغمبر کے ذریعہ سے ملے یا کسی اسماعیلی پیغمبر کے واسطہ سے نجات کے حصول کا ذریعہ تو خدا کی ہدایت کی پیروی ہے نہ کہ یہودیت و نصرانیت۔ یہ بات چونکہ سورة بقرہ کی تفسیر میں پوری وضاحت سے بیان ہوچکی ہے، نیز آگے کی سورتوں میں بھی اس کی طرف اشارات آئیں گے اس وجہ سے یہاں اس کے شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری چیز اس آیت میں یہ سمجھنے کی ہے کہ ”ان“ سے پہلے عربی زبان میں بعض اوقات لفظ مخافۃ یا اس کے کوئی ہم معنی لفظ محذوف ہوجاتا ہے۔ اس حذف کی مثالیں کلام عرب میں بھی موجود ہیں اور قرآن میں بھی۔ فراہی ؒ نے اس کے نظائر اپنی کتاب اسالیب القرآن میں جمع کردیے ہیں۔ ہم بھی اپنی اس تفسیر میں جگہ جگہ اس کو واضح کر رہے ہیں۔ اس سلوب کو ذہن میں رکھنے کے بعد آیت سے مذکورہ بالا جملہ معترضۃ کو الگ کر کے اگر ”اَنْ يُّؤْتٰٓى اَحَدٌ مِّثْلَ مَآ اُوْتِيْتُمْ اَوْ يُحَاۗجُّوْكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ“ کو ”وَلَا تُؤْمِنُوْٓا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِيْنَكُمْ“ کے ٹکڑے سے ملائیے تو معلوم ہوگا کہ یہ درحقیقت ان کے اس باطنی محرک پر روشنی ڈالی جا رہی ہے جس کے تحت وہ اپنے آدمیوں کو بڑے شد و مد کے ساتھ یہ سبق پڑھاتے تھے کہ وہ کسی حال میں بھی کسی غیر اسرائیلی نبی کے دعوے کی صداقت تسلیم نہ کریں۔ یہ باطنی محرک یہ ہے کہ ان کے دل میں یہ چور تھا کہ کہیں اس طرح کی دینی سیادت و پیشوائی بنی اسماعیل کو بھی حاصل نہ ہوجائے جس طرح کی سیادت اب تک صرف ان کو حاسل رہی ہے۔ اور ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی دل میں تھا کہ اگر ہماری طرف سے کوئی اعتراف اس دین اور اس نبی کے حق میں زبان سے نکل گیا تو مسلمان اس کو قیامت کے دن ہمارے خلاف حجت بنائیں گے کہ ہم نے حق واضح ہونے کے باوجود اس کی تکذیب کی۔ قرآن نے ان کے دل کے اس چور کو ایک دوسرے مقام میں بھی پکڑا ہے جہاں یہ واضح فرمایا ہے کہ یہود اپنے لوگوں کو اس بات کی سخت تاکید کرتے رہتے تھے کہ آخری نبی اور آخری دین کے باب میں تورات کے کسی اشارے کو مسلمانوں پر نہ کھولا جائے ورنہ وہ اس چیز کو قیامت کے روز ان کے خلاف دلیل بنائیں گے۔ چناچہ سورة بقرہ میں یہ مضمون گزر چکا ہے ”وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُمْ بِهِ عِنْدَ رَبِّكُمْ أَفَلا تَعْقِلُونَ (76) أَوَلا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (77): اور جب یہ مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان لائے ہوئے ہیں اور جب آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تم مسلمانوں کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تمہارے اوپر کھولی ہیں تاکہ مسلمان ان کی بنا پر تمہارے رب کے سامنے تمہیں قائل کریں۔ کیا تم لوگ یہ بات نہیں سمجھتے ؟ کیا یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ اللہ ان کی اس بات کو بھی جانتا ہے جو آپس میں راز دارانہ طور پر کہتے ہیں اور اس بات کو بھی جانتا ہے جو وہ مسلمانوں سے علانیہ کہتے ہیں“۔ ان دونوں اسلوبوں کے واضح ہوجانے کے بعد اب آیت کا مفہوم بالکل واضح ہے۔ یہود کے علما اور لیڈروں کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم اپنی قوم کے اندر اس تعصب کی آگ بھڑکا رہے ہو کہ کسی اسرائیلی کے لیے کسی غیر اسرائیلی کی نبوت کی تصدیق جائز نہیں۔ حالانکہ یہ بات محض حماقت اور تنگ نظری پر مبنی ہے۔ اصل شے تو خدا کی ہدایت ہے جس کا تمہیں طالب ہونا چاہیے۔ خواہ وہ بنی اسرائیل کے کسی شخص پر ناول ہو یا بنی اسماعیل کے۔ تمہارا یہ تعصب حق کی عصبیت و حمیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض خوف و حسد کا نتیجہ ہے۔ تم ڈرتے ہو کہ مبادا وہ سیادت و پیشوائی جو اب تک صرف تمہیں حاصل رہی ہے کسی دوسرے کو حاصل ہوجائے۔ آیت میں ”احد“ کا لفظ ہے لیکن قرینہ دلیل ہے کہ یہاں اس ”احد“ کا اشارہ بنی اسماعیل ہی کی طرف ہے جن کے اندر نبی امی ﷺ کی بعثت ہوئی تھی۔ چونکہ یہاں بنی اسرائیل کے دل کے ایک راز کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے اس وجہ سے قرآن نے اس کو مبہم ہی رکھا ہے۔ اَوْ يُحَاۗجُّوْكُمْ سے، جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا، ان کے اس اندیشے کی طرف اشارہ ہے کہ اگر آج اسلام اور پیغمبر اسلام کے حق میں ان کے کسی آدمی کی زبان سے کوئی بات نکل گئی تو اس کو قیامت کے دن مسلمان ان کے خلاف حجت بنائیں گے۔ قرآن نے اس پر فرمایا کہ اپنی جس سیادت و پیشوائی کو بچانے کے لیے تم یہ جتن کر رہے ہو، یہ تمہارے اختیار کی بات نہیں ہے۔ عزت و فضیلت اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہے بخشتا ہے اور جس سے چاہے چھینتا ہے۔ اسی نے تم کو یہ عزت بخشی تھی اور اب وہی اگر اس کے لیے کسی دوسرے کو منتخب کر رہا ہے تو تم اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتے۔ اس کا فیصلہ نافذ ہو کر رہے گا۔ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت کو تمہارے تنگ پیمانوں سے ناپ کر نہیں دیتا جن میں تمہارے سوا کسی اور کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے بلکہ وہ بڑی سمائی رکھنے والی ہستی ہے اور اس کا ہر فیصلہ علم و خبر پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون کس چیز کا مستحق ہے اور کون مستحق نہیں ہے۔
Top