Anwar-ul-Bayan - An-Najm : 39
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ
وَاَنْ لَّيْسَ : اور یہ کہ نہیں لِلْاِنْسَانِ : انسان کے لیے اِلَّا مَا سَعٰى : مگر جو اس نے کوشش کی
اور یہ کہ انسان کے لیے نہیں ہے مگر وہی جو کچھ اس نے کمایا
یہ جو فرمایا ہے ﴿ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۙ0039 ی﴾ (کہ ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے کوشش کی) اس پر جو یہ اشکال ہوتا ہے کہ پھر ایصال ثواب کا کوئی فائدہ نہ رہا کیونکہ 9 جو شخص عمل کرتا ہے آیت کریمہ کی رو سے اس کا ثواب صرف اسی کو پہنچنا چاہے نہ کہ کسی دوسرے شخص کو۔ اس اشاول کو حل کرنے کے لے بعض اکابر نے فرمایا ہے کہ آیت کریمہ میں جو ﴿ اِلَّا مَا سَعٰى ﴾ فرمایا ہے اس سے ایمان مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنے ہی ایمان کا ثواب ملے گا اس بات کو سامنے رکھ کر ایصال ثواب کا اشکال ختم ہوجاتا ہے کیونکہ کسی شخص کا ایمان ایسے شخص کو فائدہ نہیں دے سکتا جو کافر ہو اور کافر کو ایصال کرنے سے بھی ثواب نہیں پہنچتا۔ ذریت کو جو آباء کے ایمان کا ثواب پہنچے گا (جس کا سورة طور میں ذکر ہے اور حضرت ابن عباس ؓ کی توجیہ میں آرہا ہے) اس میں ﴿ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ ﴾ کے ساتھ بایمان بھی مذکورہ ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ آیت کا مفہوم عام نہیں ہے بلکہ عام مخصوص میں البعض ہے کیونکہ احادیث شریفہ میں حج بدل کرنے کا ذکر ہے اور حج بدل دوسرے شخص کا عمل ہے پھر بھی اس کا حج ادا ہوجاوے گا جس کی طرف سے حج ادا کا بدل ہے اور بعض احادیث میں (جو سند کے اعتبار سے صحح ہں) دوسرے کی طرف سے صدقہ کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اگر کوئی شخص ذکر یا تلاوت کا ثواب پہنچائے جبکہ ذکر و تلاوت محض اللہ کی رضا کے لیے ہو کسی طرح کا پڑھنے والے کو مالی لالچ نہ ہو تو اس میں ائمہ کرام علہم ذالرحمہ کا اختلاف ہے حضرت حنفہ اور حنابلہ کے نزدیک بدنی عبادات کا ثواب بھی پہنچتا ہے اور حضرت شوافع اور مالکیہ کے نزدیک نہیں پہنچتا، جن حضرات کے نزدیک ثواب پہنچتا ہے وہ حج بدل اور صدقات پر قیاس کرتے ہیں اور اس بارے میں حضرت ابوہریرہ ؓ کا ارشاد بھی مروی ہے : فقد روی ابوداوٗد بسندہ عن ابی ھریرة ؓ قال من یضمن لی منکم ان یضمن لی فی مسجد العشار رکعتین او اربعا ویقول ھذا لابی ہریرہ سمعت خلیلی ابا القاسم ﷺ یقول ان اللہ یبعث من مسجد العشار یوم القیامة شھداء لا یقوم مع شھداء بدر غیر ھم قال ابوداوٗد ھذا المسجد ممایلی النھرـ (ای القرات صفحہ 236 ج 2) قال فی الدر المختار الاصل ان کل من اتی بعبادة مالہ جعل ثوابھا لغیرہ وان نواھا عندالفعل لنفسہ لظاھر الادلة واما قولہ تعالیٰ (وان لیس للانسان الاماسعی) ای الا اذا وھبہ لہ (انتھی) قال الشامی فی ردالمحتار (قولہ لہ جعلی ثوابھا لغیرہ) خلافا للمعتزلة فی کل العبادات والمالک والشافعی فی العبادات البدنیة المحضة کالصلوٰة والتلاوة فلا یقولان بوصولھا بخلاف غیرھا کالصدقة والحج، ولیس الخلاف فی ان لہ ذلک اولا کما ھو ظاھر اللفظ بل فی انہ یجعل بالجعل اولا بل یلغو جعلہ افادہ فی الفتح ای الخلاف فی وصول الثواب وعدمہ (قولہ لغیرہ) ای من الاحیاء والاموات (بحر عن البدائع) (صفحہ 236: ج 2) وقد اطال الکلام فی ذلک الحافظ ابن تیمیة فی فتاواہ (صفحہ 306 الی صفحہ 324: ج 24) وقال یصل الی المیت قرأة اھلہ تسبیحھم وتکبیر ھم وسائر ذکر ھم للہ تعالیٰ واجاب عن استدلال المانعین وصول الثواب بآیة سورة النجم ثم اطال الکلام فی ذلک صاحبہ ابن القیم فی کتاب الروح (من صفحہ 156 الی صفحہ 192) والیک ماذکر فی فتاوی الحافظ ابن تیمیة فی آخر البحث، وسئل ھل القرأة تصل الی المیت من الولد اولا ؟ علی مذھب الشافعی ـ فاجاب : اماوصول ثواب العبادات البدنیة : کالقرأة، والصلاة، والصوم ـ فھذھب احمد، وابی حنیفة، وطائفة من اصحاب مالک، والشافعی، الی انھا تصل، وذھب اکثر اصحاب مالک، والشافعی، الی انھالاتصل، واللّٰہ اعلم وسئل : عن قرأة اھل المیت تصل الیہ ؟ والتسبیح والتحمید، والتھلیل والتکبیر، اذا اھداہ الی المیت یصل الیہ ثوابھا ام لا ؟ فاجاب : یصل الی المیت قراة اھلہ، وتسبیحھم، وتکبیر ھم، وسائر ذکر ھم اللہ، اذا اھدوہ الی المیت، وصل الیہ، واللہ اعلم (صفحہ 324: ج 24) وقال ابن القیم فی آخر البحث (صفحہ 192) وسرا المسالة ان الثواب ملک للعامل فاذا تبرع بہ واھداہ الی اخیہ المسلم او صلہ اللہ الیہ، فما الذی خص من ھذا ثواب قرأة القرآن وحجر علی العبدان یوصلہ الی اخیہ وھذا عمل الناس حتی المنکرین فی سائر الاعصار والامصار من غیر نکیر من العلماء حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ آیت کریمہ کا عموم منسوخ ہے کیونکہ دوسری آیت میں ﴿ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ ﴾ فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آباء کے ایمان کا ان کی ذریت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ صاحب روح المعانی نے کہا ہے کہ والئی خراساں نے حضرت حسن بن الفضل سے دریافت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف ﴿وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ فرمایا ہے اور دوسری طرف ﴿ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۙ0039﴾ فرمایا ہے دونوں میں تطبقک کی کیاٰ صورت ہے حضرت حسن بن الفضل نے فرمایا کہ سورة نجم کی آیت میں عدل الٰہی کا تذکرہ ہے کہ جو بھی کوئی اچھا عمل کرے اسے بقدر عمل ضروری اجر ملے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اس کا استحقاق ہے اس کے اجر کو ضائع نہیں فرمائے گا اور ﴿وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ میں فصل کا بیان ہے وہ جسے جتنا چاہے زیادہ سے زیادہ دیدے اسے اختیار ہے۔ والئی خراساں کو یہ جواب پسند آیا اور حضرت حسن بن الفضل کا سر چوم لیا صاحب روح المعانی نے بھی اس جواب کو پسند کیا پھر فرمایا ہے کہ حضرت ابن عطہا سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ﴿ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۙ0039﴾ صرف گناہ کے ساتھ مخصوص ہے نیکی کا ثواب تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوب بڑھا چڑھا کردیا جائے گا جس کی تفصیلات حدیثوں میں آئی ہیں اور قرآن مجید میں جو ﴿وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ اعمال صالحہ سے متعلق ہے جو شخص گناہ کرے گا اسکا گناہ اتنا ہی لکھا جائے گا جتنا اس نے کام کیا ہے اور اسی پر مواخذہ ہوگا گناہ بڑھا کر نہیں لکھا جاتا۔ صاحب معالم التنزیل نے حضرت عرنمہ ؓ سے ایک جواب یوں نقل کا ہے سورة النجم کی آیت حضرت ابراہمہ اور موسیٰ ( علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں ہے کون ہے یہ مضمون بھی ان حضرات کے صفحوں میں ہے ان کی قوموں کو صرف اپنے ہی كئے ہوئے عمل کا فائدہ پہنچتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی امت پر اللہ تعالیٰ نے یہ فضل بھی فرمایا کہ کوئی دوسرا مسلمان ثواب پہنچانا چاہے تو وہ بھی اسے پہنچ جائے گا۔ لیکن اس میں یہ اشکال ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے لئے اور اپنے والدین کے لیئے اور مومنین کے لیے جو ان کے گھر میں داخل ہوں مغفرت کی دعا کی جسا کہ سورة نوح کی آخری آیت میں مذکور ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کے لیئے اور اپنی قوم کے لیے مغفرت کی دعا کی جو سورة اعراف رکوع 18 میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امت سابقہ میں ایک دوسرے کے لیے دعاء قبول ہوتی تھی (ہاں اگر دعائے مغفرت کو مستثنیٰ کیا جائے تو یہ دوسری بات ہے) ۔ یہ جو حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہوجاتا ہے اور تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے (1) صدقہ جاریہ (2) وہ علم جس سے نفع حاصل کا جاتا ہو (3) وہ صالح اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی ہو۔ (اور بعض روایات میں سات چیزوں کا ذکر ہے) ان کا ثواب پہنچنے سے کوئی اشکال نہیں ہوتا کیونکہ یہ مرنے والے کے اپنے کیے ہوئے کام ہیں، اولاد صالح جو دعاء کرتی ہے اس میں والد کا بڑا دخل ہے کیوں نہ ہو اسی کی کوششوں سے اولاد نیک بنی اور دعاء کرنے کے لائق ہوئی۔
Top