Al-Qurtubi - An-Najm : 39
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ
وَاَنْ لَّيْسَ : اور یہ کہ نہیں لِلْاِنْسَانِ : انسان کے لیے اِلَّا مَا سَعٰى : مگر جو اس نے کوشش کی
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے
وان لیس للانسان الا ماسعی۔ حضرت ابن عباس سے یہ مروی ہے (2) کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے فرمان : و الذین امنوا و اتبعتھم ذریتھم با میان الحقابھم ذریتھم (الطور : 21) کے ساتھ منسوخ ہے قیامت کے روز چھوٹا بچہ اپنے میزان کے پاس موجود ہوگا اللہ تعالیٰ آباء کو بیٹوں کے حق میں اور بیٹیوں کو آباء کے حق میں شفیع بنا لے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے : ابآئکم وابنآء کم لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعاً (النسائ : 11) اکثر علماء تاویل نے کہا، یہ آیت محکم ہے کسی کو دوسرے کا عمل نفع نہ دے گا۔ علماء کا اس پر اجماع ہے کوئی آدمی دوسرے کی جانب سے نماز نہیں پڑھے گا۔ امام مالک نے روزہ، حج اور صدقہ میت کی جانب سے جائز قرار نہیں دیا مگر آپ نے کہا، اگر اس نے حج کی وصیت کی اور فوت ہوگیا تو اس کی جانب سے حج کرنا جائز ہے۔ امام شافعی اور دوسرے علماء نے میت کی جانب سے نفلی حج کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ سے مرومی ہے کہ انہوں نے بھائی حضرت عبدالرحمٰن کی جانب سے اعتکاف کیا اور ان کی طرف سے غلام آزاد کیا۔ یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کی : میری ماں فوت ہوگئی ہے کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کروں ؟ فرمایا :” ہاں “ عرض کی : کون سا صدقہ افضل ہے ؟ فرمایا :” پانی پلانا “ (3) یہ تمام بحث سورة بقرہ، سورة آل عمران اور سورة اعراف میں مفصل گزر چکی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ نے فرمایا وان لیس للانسان الا ماسعی یہاں لام مجرور ہے عربی زبان میں اس کا معنی ملکیت اور ثابت کرنا ہے انسان کے لئے وہی ثابت ہوتا ہے جو وہ کوشش کرتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ بچوں کو عمل کے بغیر جنت میں داخل فرماتا ہے۔ ربیع بن انس نے کہا، وان لیس للانسان الا ماسعی یہ حکم کافر کے لئے ہے (4) جاں تک مومن کا تعلق ہے اس کے لئے اس کا اپنا عمل اور غیر کا اس کے لئے عمل ہے۔ میں کہتا ہوں : بیشمار احادیث اس قول پر دلالت کرتی ہیں کہ مومن کو غیر کی جانب سے عمل صالح کا ثواب پہنچتا ہے جو آدمی غور و فکر کرتا ہے اس کے لئے ان میں سے کثیر روایات گزر چکی ہیں۔ صدقہ میں کوئی اختلاف نہیں جس طرح حضرت عبداللہ بن مبارک سے مسلم شریف سے شروع میں روایت گزری ہے۔ صحیح میں ہے : ” جب انسان فوت ہوتا ہے تو اس کا عمل ختم ہوجاتا ہے صرف تین عمل باقی رہتے ہیں (5) اس میں ایک یہ ہے یا نیک بچہ جو اس کے حق میں دعا کرتا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی جانب سے فضل و احسان ہے، جس طرح کئی گنا بدلہ دینا اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بدلہ میں دس سے لے کر سات سو گنا اور دس لاکھ تک اجر لکھتا ہے، جس طرح حضرت ابوہریرہ سے ہا گیا : کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک نیکی پر دس لاکھ نیکیوں کا اجر عطا فرماتا ہے ؟ فرمایا : میں نے آپ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے :” اللہ تعالیٰ ایک نیکی پر بیس لاکھ نیکوں کا اجر عطا فرماتا ہے۔ “ یہ فضل و احسان ہے اور عدل کا اسلوب و ان لیس للانسان الا ماسعی ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ احتمال موجود ہے وان لیس للانسان الا ماسعی یہ صرف برائی کے ساتھ خاص ہو کیونکہ مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ کی روایت نبی کریم ﷺ سے مروی ہے فرمایا :” اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا جب میرا بندہ نیکی کا ارادہ کرتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا تو میں اس کے حق میں ایک نیکی لکھ لیتا ہوں اگر وہ اس پر عمل کرے تو میں اس کے حق میں دس نیکیوں سے لے کر سات سو گنا تک لکھ لیتا ہوں اور جب وہ کسی برائی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کرے تو میں اس کی خلاف کچھ بھی نہیں لکھتا اگر وہ اس پر عمل کرے تو میں صرف ایک برائی لکھتا ہوں۔ “ (1) ابوبکر وراق نے کہا : الا ماسعی کا معنی ہے مگر جس کی وہ نیت کرے۔ اس کی وضاحت نبی کریم ﷺ کے ارشاد میں ہے : یبعث الناس یوم القیامۃ علی نیاتھم لوگوں کو قیامت کے روز ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا۔
Top