Anwar-ul-Bayan - Al-Anfaal : 25
وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو تم فِتْنَةً : وہ فتنہ لَّا تُصِيْبَنَّ : نہ پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا مِنْكُمْ : تم میں سے خَآصَّةً : خاص طور پر وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : شدید الْعِقَابِ : عذاب
اور تم ایسے فتنہ سے بچو جو خاص کر انہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے گناہوں کے مرتکب ہوئے اور جان لو کہ بلاشبہ اللہ سخت عذاب والا ہے۔
ایسے فتنہ سے بچو جو خاص کر گناہگاروں پر واقع نہ ہوگا اس آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ گناہوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے جو فتنہ یعنی عذاب اور و بال آتا ہے وہ صرف انہی لوگوں کو محدود نہیں رہتا جنہوں نے گناہ کیے بلکہ دوسرے لوگ بھی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ احادیث شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دینے کی وجہ سے جب گناہ گاروں پر عذاب آتا ہے تو وہ لوگ بھی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو ان گناہوں کے مرتکب نہیں جن کی وجہ سے عذاب آیا لیکن چونکہ ان لوگوں نے گناہوں سے روکنے کا فریضہ ادا نہیں کیا اور اپنی نیکیوں میں لگے رہے اور گناہگاروں کو گناہوں سے نہیں روکا اس لیے یہ لوگ بھی مبتلائے عذاب ہوتے ہیں۔ متعدد احادیث میں اس کی تصریح وارد ہوئی ہے۔ نھی عن المنکر چھوڑنے پر وعیدیں : حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کسی بھی قوم میں اگر کوئی ایسا شخص ہو جو گناہوں کے کام کرتا ہو اور وہ لوگ روکنے پر قدرت رکھتے ہوئے اسے نہ روکتے ہوں تو ان لوگوں کی موت سے پہلے اللہ تعالیٰ ان پر عام عذاب بھیج دے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 437) حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گناہوں میں پڑنے والوں اور گناہ ہوتے ہوئے دیکھنے والوں کی ایک مثال بیان فرمائی اور وہ یہ کہ ایک کشتی ہے اس میں دو طبقے ہیں، قرعہ ڈال کر آپس میں طے کرلیا کہ کون لوگ اوپر کے حصہ میں جگہ لیں اور کون لوگ نیچے والے طبقہ میں بیٹھیں، جب اپنے اپنے حصوں میں بیٹھ گئے تو جو لوگ نیچے ہیں وہ پانی لینے کے لیے اوپر جاتے ہیں، اوپر والے لوگ ان کے آنے سے تکلیف محسوس کرتے ہیں (جب نیچے والوں نے یہ دیکھا کہ یہ لوگ ہمارے آنے سے تکلیف محسوس کرتے ہیں تو) انہوں نے ایک کلھاڑا لیا اور کشتی میں نیچے سوراخ کرنے لگے اوپر والے آئے اور انہوں نے کہا کہ تم یہ کیا کرتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں پانی کی ضرورت ہے اور ہم اوپر جاتے ہیں تو تمہیں تکلیف ہوتی ہے (لہٰذا ہم یہیں سے پانی لے لیں گے) تو اب اگر اوپر والے لوگ نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں گے (تاکہ سوراخ نہ کریں) تو ان کو بھی بچا لیں گے اور اپنی جان کو بھی بچا لیں گے۔ اور اگر ان کو اسی حال پر چھوڑ دیا تو ان کو بھی ہلاک کردیں گے اور اپنی جانوں کو بھی ہلاک کردیں گے۔ (رواہ البخاری ص 339 ج 1۔ 369 ج 2) معلوم ہوا کہ جہاں خود نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی ضرورت ہے وہاں اس کی بھی ضرورت ہے کہ گناہ کرنے والوں کو گناہ کرنے سے روکتے رہیں، اگر ایسا نہ کیا تو عذاب آنے کی صورت میں سبھی مبتلائے عذاب ہوں گے۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ فلاں شہر کو اس کے رہنے والوں سمیٹ الٹ دو ۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے رب بلاشبہ ان لوگوں میں آپ کا ایک ایسا بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے کے برابر بھی آپ کی نافرمانی نہیں کی (کیا اس کو بھی عذاب میں شامل کردیا جائے) ؟ اللہ کا ارشاد ہوا کہ اس شہر کو اس شخص پر اور بستی والوں پر الٹ دو ۔ کیونکہ میرے بارے میں اس کے چہرہ میں کبھی تغیر نہیں آیا 1 ؂ یعنی یہ شخص زبان اور ہاتھ سے تو لوگوں کو گناہوں سے کیا روکتا اس کے چہرہ پر گناہوں کو دیکھ کر ذرا سا بھی اثر نہ ہوا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دینے کی وجہ سے جب عذاب آتا ہے تو اس وقت دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں، حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے امر المعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو، ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنے پاس سے عذاب بھیج دے گا پھر اس سے دعا مانگو گے اور وہ قبول نہ فرمائے گا۔ (رواہ الترمذی) بعض حضرات نے اس آیت تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس میں اس فتنہ کا ذکر ہے جو ترک جہاد کی وجہ سے عوام و خواص سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ دین اور شعائردین کی حفاظت اور عامۃ المسلمین کی حفاظت جہاد قائم رکھنے میں ہے مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے کہ جہاد کرتے ہی رہیں اگرچہ کافر حملہ آور نہ ہوں اور اگر حملہ آور ہوجائیں تو پھر کوئی گنجائش کسی کو جہاد سے پیچھے ہٹنے کی ہے ہی نہیں۔ جہاد کا سلسلہ جاری نہ رکھنے کی ہی وجہ سے دشمن کو آگے بڑھنے کی جرأت ہوتی ہے اور جب دشمن چڑھ آتے ہیں تو بچوں بوڑھوں اور عورتوں کی حفاظت کے لیے فکر مند ہونا پڑتا ہے۔ لہٰذا جہاد جاری رکھا جائے اور اس سے پہلو تہی نہ کریں ورنہ عوام و خواص مصیبت میں گھر جائیں گے۔ 1 ؂ مشکوۃ المصابیح ص 438۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی قوم جہاد چھوڑ دے گی اللہ تعالیٰ ان پر عذاب بھیج دے گا۔ (مجمع الزوائد ص 284 ج 5 عن الطبرانی فی الاوسط) آخر میں فرمایا (وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ) (اور جان لو کہ اللہ سخت عذاب والا ہے) اس کا مراقبہ کریں اور گناہوں سے بچتے رہیں۔
Top