Tafseer-e-Baghwi - Al-Anfaal : 25
وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو تم فِتْنَةً : وہ فتنہ لَّا تُصِيْبَنَّ : نہ پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا مِنْكُمْ : تم میں سے خَآصَّةً : خاص طور پر وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : شدید الْعِقَابِ : عذاب
اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے۔
تفسیر 25 (واتقوا فتنۃ لاتصبین) قولہ ” لاتصیبن “ یہ محض جزاء نہیں ہے۔ اگر یہ جزاء ہوتی تو اس پر نون داخل نہ ہوتا۔ یہ نفی ہے اور اس میں جزاء کی ایک طرف بھی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا قول ” یا یھا النمل ادخلوا مساکنکم لایحطمنکم سلیمان و جنودہ “ ہے اور اس کی اصل عبارت ” واتقوافتنۃ ان لم تتقوھا اصابتکم “ ہے یعنی تم فتنہ سے بچو، اگر نہیں بچو گے تو وہ تمہیں آپہنچے گا۔ یہ کہنے والے کے قول ” انزل عن الدابۃ لاتطرحک ولا تطرحنک “ کی طرح ہے یعنی سواری سے اتر یہ تجھے پھینک نے دے۔ تو یہ امر کا جواب ہے نفی کے الفاظ میں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر تو اتر آئے تو یہ تجھے نہ پھینکے گی۔ (الذین ظلموا منکم خآصۃ) مفسرین رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی اور اس کا معنی یہ یہ کہ اس فتنہ سے بچو جو ظالم اور غیر ظالم کو پہنچے گا ۔ حسن (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی، عمار، طلحہ اور زبیر ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے ایک زمانہ تک یہ آیت پڑھی اور اس کا مصداق کوئی نہیں دیکھا تو ہم لوگ ہی اس سے مراد ہیں۔ یعنی جو جنگ جمل میں شریک ہوئے۔ سدی، مقاتل اور ضحاک اور قتادہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے بعض مخصوص لوگوں کے بارے میں ہے جن کو جنگ جمل میں فتنہ پہنچا ۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مئومنین کو حکم دیا کہ وہ کسی ناپسند کام کو اپنے درمیان رواج نہ پانے دیں ورنہ اللہ کا عمومی عذاب آئے گا جو ظالم اور غیر ظالم کو پہنچے گا۔ عدی بن عدی کندی (رح) فرماتے ہیں کہ ہمارے آزد کردہ غلام نے بیان کیا کہ اس نے میرے دادا سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ اللہ عام لوگوں کو چند خاص لوگوں کے عمل کی وجہ سے عذاب نہ دیں گے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان کسی ناپسند (گناہ کے کام) کام ک دیکھیں اور وہ اس کے انکار پر قادر ہونے کے باوجود انکار نہ کریں، جب وہ ایسا کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ عام و خاص ہر ایک کو عذاب دیں گے۔ ابن زید (رح) فرماتے ہیں کہ فتنہ سے مراد باہمی مخالفت ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عنقریب فتنے ہوں گے کہ بیٹھا ہوا شخص ان میں کھڑے ہوئے سے بہتر ہوگا اور کھڑا شخص چلنے والے سے بہتر ہوگا اور اس میں چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا جو ان کو جھانکے گا وہ اس کو جھانکیں گے۔ پس جو شخص کوئی پناہ گاہ یا ٹھکانہ پائے تو اس کی پناہ لے۔ (واعلموآ ان اللہ شدید العاقب)
Top