Tafseer-e-Usmani - Al-Anfaal : 25
وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو تم فِتْنَةً : وہ فتنہ لَّا تُصِيْبَنَّ : نہ پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا مِنْكُمْ : تم میں سے خَآصَّةً : خاص طور پر وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : شدید الْعِقَابِ : عذاب
اور بچتے رہو اس فساد سے کہ نہیں پڑے گا تم میں سے خاص ظالموں ہی پر اور جان لو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے4
4 یعنی فرض کیجئے ایک قوم کے اکثر افراد نے ظلم و عصیان کا وتیرہ اختیار کرلیا، کچھ لوگ جو اس سے علیحدہ رہے انہوں نے مداہنت برتی، نہ نصیحت کی نہ اظہار نفرت کیا تو یہ فتنہ ہے جس کی لپیٹ میں وہ ظالم اور یہ خاموش مداہن سب آجائیں گے۔ جب عذاب آئے گا تو حسب مراتب سب اس میں شامل ہوں گے کوئی نہ بچے گا۔ اس تفسیر کے موافق آیت سے مقصود یہ ہوگا کہ خدا و رسول کی حکم برداری کے لیے خود تیار رہو اور نافرمانوں کو نصیحت و فہمائش کرو نہ مانیں تو بیزاری کا اظہار کرو۔ باقی حضرت شاہ صاحب نے آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ مسلمانوں کو ایسے فساد (گناہ) سے بالخصوص بچنا چاہیے جس کا خراب اثر گناہ کرنے والے کی ذات سے متعدی ہو کر دوسروں تک پہنچتا ہے۔ پہلے فرمایا تھا کہ خدا اور رسول کا حکم ماننے میں ادنیٰ تاخیر اور کاہلی نہ کرے کہیں دیر کرنے کی وجہ سے دل نہ ہٹ جائے۔ اب تنبیہ فرماتے ہیں کہ اگر نیک لوگ کاہلی کریں گے تو عام لوگ بالکل چھوڑ دیں گے تو رسم بد پھیلے گی۔ اس کا وبال سب پر پڑے گا۔ جیسے جنگ میں دلیر سستی کریں تو نامرد بھاگ ہی جائیں۔ پھر شکست پڑے تو دلیر بھی نہ تھام سکیں۔
Top