Anwar-ul-Bayan - Maryam : 65
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَ اصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ١ؕ هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِیًّا۠   ۧ
رَبُّ السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کا رب وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان فَاعْبُدْهُ : پس اس کی عبادت کرو وَاصْطَبِرْ : اور ثابت قدم رہو لِعِبَادَتِهٖ : اس کی عبادت پر هَلْ : کیا تَعْلَمُ : تو جانتا ہے لَهٗ : اس کا سَمِيًّا : ہم نام کوئی
یعنی آسمان اور زمین کا اور جو ان دونوں کے درمیان ہے سب پروردگار کا ہے تو اسی کی عبادت کرو اور اسی کی عبادت پر ثابت قدم رہو بھلا تم کوئی اسکا ہم نام جانتے ہو ؟
(19:65) رب السموت والارض وما بینہما۔ میں ربخبر ہے جس کا مبتدا محذوف ہے۔ یعنی ھو رب السموتالخ یا یہ ربک (آیہ 64) کا بدل ہے۔ اصطبر۔ امر۔ واحد مذکر حاضر۔ اصطبار (افتعال) مصدر۔ تو قائم رہ۔ تو سہتا رہ تو صبر کر۔ سمیا۔ نظیر ۔ ہمنام۔ ھل تعلم لہ سمیا۔ (کیا تم کوئی اس کا ہمنام جانتے ہو) میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں جو اس نام کی مستحق ہو اور حقیقۃً اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ متصف ہو۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ کیا تم کسی کو ایسا بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہو کیونکہ ایسے تو اللہ کے بہت سارے نام ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان سے معنی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں۔ آیات 64 و 65 ۔ پورا پیراگراف ایک جملہ معترضہ ہے جو ایک سلسلۂ کلام کو ختم کر کے دوسرا سلسلہ کلام شروع کرنے سے پہلے ارشاد ہوا ہے۔ اس کی شان نزول میں مختلف اقوال ہیں۔ لیکن جمہو رمفسرین کے نزدیک اس کی شان نزول کے متعلق وہ روایت ہے جو کہ بخاری نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے۔ کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا کہ آپ میرے پاس جلدی جلدی کیوں نہیں آیا کرتے اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ گویا خدا تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف سے جواب دیا کہ ہم خود نہیں آتے بلکہ تمہارے رب کے حکم سے آیا کرتے ہیں۔۔ الخ۔
Top