Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور کہتے ہیں ہمارے دل پردے میں ہیں (نہیں) بلکہ خدا نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے پس یہ تھوڑے ہی پر ایمان لاتے ہیں
غلف جمع اغلف واحد۔ اغلف اس چیز کو کہتے ہیں جو غلاف میں بند ہو۔ چناچہ غلفت السیف کے معنی ہیں، میں نے تلوار کو نیام میں بند کردیا۔ مطلب یہ کہ ہمارے دل غلافوں میں بند ہیں اس لئے قرآن مجید کی باتیں ہمارے تک نہیں پہنچ سکتیں۔ بعض کے نزدیک غلف اصل میں غلف تھا۔ لام کے صیغہ کو تخفیفاً ساقط کردیا گیا اور یہ غلاف کی جمع ہے جیسے کتاب کی جمع کتب ہے۔ غلاف کے معنی مخزن ہیں۔ اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ہمارے دل خود ہی علوم و معارف کے گنجینے اور مخزن ہیں لہٰذا ہمیں دوسروں کے علوم سے استفادہ کی ضرورت نہیں۔ بل حرف اضراب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حقیقت یہ نہیں ہے کہ ان کے دل غلافوں کے اندر بند ہیں ۔ یا وہ علوم و معارف کے خزانے ہیں۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ خدا نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے۔ بل کے متعلق ملاحظہ ہو (2:135) فقلیلا۔ میں فاء سببیہ ہے۔ قلیلا منصوب ہے اس لئے کہ یہ صفت ہے مفعول مطلق محذوف ایمانا کی اور ما زائدہ ہے ۔ ای فایمانا قلیلا یؤمنون ۔ پس یہ تھوڑے ہی پر ایمان لاتے ہیں۔
Top