Dure-Mansoor - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور انہوں نے کہا کہ ہمارے دلوں پر خلاف ہیں بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے ان کو اللہ نے ملعون قرار دیدیا، سو بہت کم ایمان لاتے ہیں۔
(1) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ دل کو پلٹ جانے کی وجہ سے قلب کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مختلف کیفیات میں بدلتا رہتا ہے۔ (2) امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ دل آپ اس طرح پڑھا کرتے تھے لفظ آیت ” وقالوا قلوبنا غلف “ تشدید کے ساتھ یہودی کہتے تھے کہ تم کس طرح ہم کو سکھاتے ہو ہمارے دل حکمت کے لیے غلاف نہیں یعنی حکمت کے لیے برتن ہیں۔ (3) ابن جریر ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وقالوا قلوبنا غلف “ یعنی ہمارے دل علم سے بھرے ہوئے ہیں اس لیے ہمیں محمد ﷺ کے علم کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ اس کے علاوہ کسی اور علم کی۔ (4) عبد بن حمید اور ابن جریر نے حضرت عطیہ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وقالوا قلوبنا غلف “ یعنی یہ وہ ایسے دل ہیں جن پر مہریں لگی ہوئی ہیں۔ (5) وکیع نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وقالوا قلوبنا غلف “ یعنی دلوں پر مہر ہے۔ (6) امام ابن جریر نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وقالوا قلوبنا غلف “ یعنی دلوں پر پردہ ہے۔ (7) عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وقالوا قلوبنا غلف “ یعنی انہوں نے کہا کہ ہمارے دل نہیں سمجھتے۔ دل کی چار قسمیں (8) ابن ابی شیبہ اور ابن ابی الدنیا نے کتاب الاخلاص میں ابن جریر نے حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ دل چار قسم کے ہیں وہ دل جو ڈھکا ہوا ہوتا ہے کہ یہ دل منافق کا ہے۔ اور وہ جو صاف ہوتا ہے جس میں مثل چراغ کے ایمان کی روشنی ہے اور یہ دل مؤمن کا ہے۔ اور وہ دل جس میں ایمان اور نفاق دونوں ہیں سو ایمان کی مثال ایسے درخت کی ہے جس کو پاک پانی بڑھاتا ہے اور نفاق کی مثال پھوڑے کی سی ہے جس کو پیپ اور خون بڑھاتا ہے۔ سو دونوں فاسد مادوں میں سے جو مادہ غالب آتا ہے وہ دوسرے کو ہلاک کردیتا ہے۔ (9) امام عاصم نے حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ دلوں پر فتنہ پیش کیا جاتا ہے سو جو دل اس کا انکار کردیتا ہے اس دل میں ایک سفید داغ پیدا ہوجاتے ہیں اور جو دل اس کا انکار نہیں کرتا اس کو قبول کرلیتا ہے۔ تو اس دل میں ایک سیاہ داغ پیدا ہوجاتا ہے کہ پھر دلوں پر دوسرا فتنہ پیش کیا جاتا ہے اگر اس دل نے پھر انکار کردیا جس نے پہلے بھی انکار کیا تھا تو اس دل میں ایک اور سفید داغ پیدا ہوجاتا ہے اور اگر دل نے انکار نہ کیا تو پھر مزید سیاہ داغ لگ جاتا ہے۔ پھر اور فتنہ پیش کیا جاتا ہے اگر اس دل نے پھر انکار کردیا تو سفیدی شدید ہوجاتی ہے۔ اس کو کبھی بھی کوئی فتنہ ضرر نہیں پہنچا سکتا۔ اور اگر اس نے پہلے دونوں مرتبہ انکار نہ کیا تو وہ کالا ہوجاتا ہے۔ اور الٹا ہوجاتا ہے اور جھک جاتا ہے۔ پھر ایسا دل حق کو نہیں پہچانتا اور نہ کسی گناہ کا انکار کرتا ہے۔ (10) امام ابن ابی شیبہ نے کتاب الایمان میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ بلاشبہ ایمان دل میں ایک مختصر سفیدی میں حاضر ہوتا ہے جب ایمان زیادہ ہوتا ہے تو سفید بھی زیادہ ہوجاتا ہی اور نفاق بھی دل میں چھوٹی سی سیاہی کی طرح ظاہر ہوتا ہے۔ جب نفاق زیادہ ہوتا جاتا ہے تو سیاہی بھی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ جب نفاق مکمل ہوجاتا ہے تو سارا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ اور اللہ کی قسم اگر تم مؤمن کے دل کو چیر کر دیکھو تو اس کو سفید پاؤ گے اور تم منافق کے دل کو چیر کر دیکھو تو اس کو سیاہ پاؤ گے۔ (11) امام احمد نے جید سند کے ساتھ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دل چار قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ دل ہے جو صاف ہوتا رہتا ہے اس میں چراغ کی طرح کوئی چیز روشن ہوتی ہے اور دوسرا وہ دل ہے جو غلاف میں لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ اور تیسرا وہ دل جو اندھا کیا ہوا اور چوتھا وہ دل ہے جو ڈھکا ہوا ہوتا ہے وہ دل جو صاف ہوتا ہے وہ مؤمن کا دل ہے اس کو چراغ ہے جس میں اس کی روشنی ہے اور جو دل غلاف چڑھا ہوا ہے وہ دل کافر کا ہے اور جو دل اوندھا کیا ہوا ہے وہ دل ایسے منافق کا ہے جو کافر ہے جو حق بات پہچانتا ہے پھر بھی انکار کرتا ہے اور جو دل ڈھکا ہوا ہے اس دل میں ایمان بھی ہے اور نفاق بھی ہے۔ اور اس میں ایمان کی مثال ایسی سبزی کی طرح ہے جس کو پاک پانی بڑھاتا ہے اور اس میں نفاق کی مثال اس پھوڑے کی سے ہے جس کو پیپ اور خون بڑھاتا ہے پھر ان دونوں فاسد مادوں میں سے جس نے دوسرے پر غلبہ کرلیا وہ اس پر غالب ہوگیا سلمان فارسی سے اسی طرح موقوف روایت ہے۔ واما قو لہ تعالیٰ : فقلیلا ما یؤمنون۔ (12) امام عبد الرز اق اور ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فقلیلا ما یؤمنون “ سے مراد ہے کہ ان میں سے بہت تھوڑے سے لوگ ایمان لاتے ہیں۔
Top