Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور کہتے ہیں ہمارے دلوں پر غلاف ہے بلکہ لعنت کی ہے اللہ نے ان کے کفر کے سبب سو بہت کم ایمان لاتے ہیں۔
خلاصہ تفسیر
اور وہ (یہودی طنزیہ طور پر) کہتے ہیں کہ ہمارے قلوب (ایسے) محفوظ ہیں (کہ اس میں مخالف مذہب کا جو اسلام ہے اثر ہی نہیں ہوتا تو مذہب پر ہم خوب پختہ ہیں حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ محفوظی اور پختگی نہیں ہے) بلکہ ان کے کفر کے سبب ان پر خدا کی مار ہے (کہ اسلام جو مذہب حق ہے اس سے نفور اور منسوخ مذہب پر مصر ہیں) سو بہت ہی تھوڑا سا ایمان رکھتے ہیں (اور تھوڑا ایمان مقبول نہیں پس وہ کافر ہی ٹھہرے)
فائدہیہ تھوڑا سا ایمان ان امور کے بابت ہے جو ان کے مذہب اور اسلام میں مشترک ہیں مثلاً خدا کا قائل ہونا قیامت کا قائل ہونا کہ ان امور کے وہ بھی قائل تھے لیکن خود نبوت محمدیہ اور قرآن کے کلام الہی ہونے کے منکر تھے اس لئے پورا ایمان نہ تھا،
اور اس تھوڑے ایمان کو باعتبار لغت ایمان کہا جس کے معنی یقین کے ہیں گو وہ بعض اشیاء کے ساتھ ہی متعلق ہو شرعاً اس کو ایمان نہیں کہتے شرعاً وہ ایمان معتبر ہے جو کل امور وارد فی الشرع کے یقین کے ساتھ ہو،
Top