Anwar-ul-Bayan - Al-Hajj : 53
لِّیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْقَاسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَفِیْ شِقَاقٍۭ بَعِیْدٍۙ
لِّيَجْعَلَ : تاکہ بنائے وہ مَا يُلْقِي : جو ڈالا الشَّيْطٰنُ : شیطان فِتْنَةً : ایک آزمائش لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : مرض وَّ : اور الْقَاسِيَةِ : سخت قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاِنَّ : اور بیشک الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) لَفِيْ شِقَاقٍ : البتہ سخت ضد میں بَعِيْدٍ : دور۔ بڑی
غرض (اس میں) یہ ہے کہ جو (وسوسہ) شیطان ڈالتا ہے اس کو ان لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہیں ذریعہ آزمائش ٹھہرائیے بیشک ظالم پرلے درجے کی مخالفت میں ہیں
(22:53) لیجعل۔ میں لام تعلیل کا ہے۔ یعنی یہ القا من جانب الشیطن اس لئے ہے کہ جن کے دلوں میں مرض ہے یا جو شقی القلب ہیں ان کے لئے فتنہ کا موجب ہو۔ فتنۃ۔ الفتن۔ اس کے معنی دراصل سونے کو آگ میں گھلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا معلوم ہوجائے۔ قرآن مجید میں فتنہ اور اس کے مشتقات کو مختلف معنی کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً ، آزمائش، مصیبت، فساد ، بدنظمی، عبرت، ایذا۔ دکھ، عذاب عذر وغیرہ۔ اصل معنی کے لحاظ سے انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوا ہے مثلاً یوم ہم علی النار یفتنون (51:13) جب ان کو آگ پر تپایا جائے گا۔ اور آیت ثم لم تکن فتنتہم الا ان قالوا واللہ ربنا ما کنا مشرکین (6:23) میں بمعنی الحجۃ دلیل۔ عذر کے معنوں میں آیا ہے۔ پھر ان کے پاس کوئی حجت نہ رہ جائے گی مگر یہ کہ وہ کہہ اٹھیں گے قسم ہے اللہ ہمارے پروردگار کی کہ ہم مشرک نہ تھے۔ آیت ہذا میں بمعنی آزمائش آیا ہے۔ القاسیۃ۔ قسا یقسوا (باب نصر) سے اسم فاعل واحد مؤنث کا صیغہ ہے بمعنی صفت سخت، ٹھوس۔ قسو۔ قسوۃ۔ قساوۃ وقساء ۃ مصدر۔ محاورہ ہے ھو اقسی من الصخر۔ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہے۔ والقاسیۃ قلوبہم ای وللقاسیۃ قلوبہم اور ان کے لئے جن کے دل بہت سخت ہیں۔ شقاق۔ ضد۔ مخالفت۔ شقاق بعید۔ وہ مخالفت جو بہت دور تک پہنچ چکی ہو۔ مکمل مخالفت۔ شدید عداوت۔
Top