Anwar-ul-Bayan - Al-Hajj : 52
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤى اَلْقَى الشَّیْطٰنُ فِیْۤ اُمْنِیَّتِهٖ١ۚ فَیَنْسَخُ اللّٰهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْكِمُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌۙ
وَمَآ اَرْسَلْنَا : اور نہیں بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے مِنْ : سے۔ کوئی رَّسُوْلٍ : رسول وَّلَا : اور نہ نَبِيٍّ : نبی اِلَّآ : مگر اِذَا : جب تَمَنّىٰٓ : اس نے آرزو کی اَلْقَى : ڈالا الشَّيْطٰنُ : شیطان فِيْٓ : میں اُمْنِيَّتِهٖ : اس کی آرزو فَيَنْسَخُ : پس ہٹا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَا يُلْقِي : جو ڈالتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان ثُمَّ : پھر يُحْكِمُ اللّٰهُ : اللہ مضبوط کردیتا ہے اٰيٰتِهٖ : اپنی آیات وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر (اس کا یہ حال تھا کہ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آرزو میں (وسوسہ) ڈالتا ہے جو وسوسہ شیطان ڈالتا خدا اس کو دور کردیتا ہے۔ پھر خدا اپنی آیتوں کو مضبوط کردیتا ہے اور خدا علم والا اور حکمت والا ہے
(22:52) تمنی۔ المنی سے ماضی واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے (باب تفعل) المنجد میں اس کے معنی یہ دئیے ہیں۔ (1) تمنی الشیء ارادہ کرنا۔ (2) تمنی الکتاب۔ پڑھنا۔ (3) تمنی الرجل جھوٹ بولنا۔ (4) تمنی الحدیث۔ جھوٹی بات گھڑنا۔ امام راغب (رح) فرماتے ہیں :۔ التمنی کے معنی دل میں کسی خیال کے باندھنے اور اس کی تصویر کھینچ لینے کے ہیں۔ (التمنی تقدیر شیء فی النفس وتصویرہ فیھا) ۔ بہت سے مفسرین نے آیہ ہذا میں اس کے معنی قرات کے لئے ہیں (تمنی الکتاب) اور اس بابت انہوں نے انحصار کیا ہے اولاً آیت شریفہ ومنہم امیون لا یعلمون الکتب الا امانی (2:78) پر اور ثانیا اس شعر پر۔ تمنی کتب اللہ اخر لیلۃ تمنی داود الزبور علی الرسل مگر یہ بات واضح رہے کہ تمنی کے اصل معنی وہی ہیں جو امام راغب نے بیان کئے ہیں۔ قرات اس کے تقدیری معنی ہیں اور ان معنوں کے لئے کوئی قرینہ حالیہ چاہیے۔ آیت مذکورہ بالا اور شعر مندرجہ بالا ہر دو میں قرینہ حالیہ کتب موجود ہے۔ لیکن آیہ ھذا (22:52) میں کوئی ایسا قرینہ حالیہ موجود نہیں کہ اس کے معنی قرات کے لئے جائیں۔ دوسری طرف تمنا، آرزو، خیال باندھنے کے معنی میں قرآن مجید میں متعدد آیات ہیں مثلاً :۔ یعدہم ویمنیہم (4:120) (شیطان) ان سے وعدے ہی کرتا اور ہوسیں ہی دلاتا رہتا ہے۔ دی گئی۔ اذن کا متعلق محذوف ہے ای اذن لہم فی القتال۔ ان کو قتال کی (جہاد کی) اجازت دی جاتی ہے۔ ان زعمتم انکم اولیاء للہ من دون الناس فتمنوا الموت ان کنتم صدقین (62:6) اگر تمہارا یہ دعوی ہے کہ تم ہی تم بلا شرکت غیرے اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمنا کر دکھائو۔ اگر تم سچے ہو۔ لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتاب (4:123) نہ تمہاری تمنائوں پر ہے نہ اہل کتاب کی تمنائوں پر۔ وغیرہ۔ تفصیل بالا سے واضح ہے کہ آیت زیر بحث میں ” تمنی “ کو آرزو اور تمنا کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور اس کو قرات کے معنی پہنانا دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے اور اسی سے قصہ غرانیق نے جنم لیا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں (اس قصہ کی تفصیل کے لئے کتب تفاسیر ملاحظہ ہوں) القی۔ اس نے ڈالا۔ القاء (افعال) سے ماضی واحد مذکر غائب۔ امنیتہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ امنیۃ واحد۔ اس کا خیال۔ اس کی تمنا اس کی جمع امانی ہے ای القی الشیطان امنیتہ فی امنیتہ یعنی شیطان اس کی آرزو میں اپنی آرزو شامل کردیتا ہے۔ ینسخ مضارع واحد مذکر غائب نسخ مصدر (باب فتح) وہ دور کردیتا ہے وہ منسوخ کردیتا ہے۔ النسخ کے اصل معنی ایک چیز کو زائل کر کے دوسری کو اس کی جگہ پر لانے کے ہیں اور کبھی عرف ازالہ کے معنی ہی مراد ہوتے ہیں جیسا کہ آیت ہذا میں۔ پس فینسخ اللہ ما یلقی الشیطن کا ترجمہ ہوا۔ پس جو (وسوسہ) شیطان ڈالتا ہے خدا اس کو دور کردیتا ہے۔ اسی سے باب استفعال سے استنساخ کے معنی کسی چیز کے لکھنے کو طلب کرنے یا لکھنے کے لئے تیار ہونے کے ہیں۔ اور کبھی اسی باب سے بمعنی نسخ (کتاب کی کاپی کرنا۔ یا لکھنا) بھی آجاتا ہے جیسا کہ انا کنا نستنسخ ما کنتم تعلمون (45:29) جو کچھ تم کیا کرتے تھے ہم لکھواتے جاتے تھے۔ اسی سے تناسخ الازمنۃ (باب تفاعل) ایک زمانے کا گذر جانا اور دوسرے زمانے کا اس کی جگہ آجانا۔ مولانا ابو الکلام آزاد (رح) نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے :۔ اور (اے پیغمبر) ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول اور جتنے نبی بھیجے سب کے ساتھ یہ معاملہ ضرور پیش آیا کہ جونہی انہوں نے (اصلاح و سعادت کی) آرزو کی شیطان نے ان کی آرزو میں کوئی نہ کوئی فتنہ کی بات ڈال دی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی وسوسہ اندازیوں کا اثر مٹایا اور اپنی نشانیوں کو اور زیادہ مضبوط کردیا۔
Top