Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 215
وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَۚ
وَ : اور اخْفِضْ : جھکاؤ جَنَاحَكَ : اپنا بازو لِمَنِ : اس کے لیے جس نے اتَّبَعَكَ : تمہاری پیروی کی مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں
اور جو مومن تمہارے پیرو ہوگئے ہیں ان سے بتواضع پیش آؤ
(26:215) اخفض۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر خفض مصدر باب ضرب ہے جس کے معنی پست ہونے نرم روی اختیار کرنے اور جھکنے کے ہیں۔ یہ رفع کی ضد ہے ۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے واخفض لہما جناح الذل (17:24) اور عجزو نیاز سے ان کے آگے (ماں باپ کے آگے) جھکے رہو۔ واخفض جناحک۔ اور اپنے پروں کو نیچے کیا کیجئے۔ یعنی مشفقانہ اور فروتنی سے پیش آئیے۔ من المؤمنین میں من تبعیضیہ ہے۔ یہاں دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ انذر عشیرتک الاقربین کے نیچے میں تمہارے رشتہ داروں میں سے جو لوگ ایمان لاکر تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ نرمی اور ملاطفت کا رویہ اختیار کریں اور جو تمہاری بات نہ مانیں (آیت 216) ان سے اعلان برأت کردو۔ دوسرے یہ کہ قریش اور آس پاس کے اہل عرب میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو رسول اللہ ﷺ کی صداقت کے قائل ہوگئے تھے لیکن انہوں نے عملا آپ کی پیروی اختیار نہ کی تھی بلکہ وہ بدستور اپنی گمراہ سوسائٹی میں مل جل کر اسی طرح کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ جیسی دوسرے کفار کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے ماننے والوں کو ان اہل ایمان سے الگ قرار دیا۔ جنہوں نے حضور ﷺ کی صداقت تسلیم کرنے کے بعد آپ کا اتباع بھی اختیار کرلیا تھا ۔ تواضح برتنے کا حکم صرف اسی مؤخر الذکر گروہ کے لئے تھا۔ باقی رہے وہ لوگ جو حضور ﷺ کی فرمانبرداری سے منہ موڑے ہوئے تھے ان کے متعلقحضور ﷺ کو ہدایت کی گئی کہ ان سے بےتعلقی کا اظہار کر دو اور صاف صاف کہہ دو کہ اپنے اعمال کا نتیجہ تم خود بھگتو گے۔ (تفہیم القرآن)
Top