Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 82
وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ١ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ۠   ۧ
وَاِذَا : اور جب وَقَعَ الْقَوْلُ : واقع (پورا) ہوجائے گا وعدہ (عذاب) عَلَيْهِمْ : ان پر اَخْرَجْنَا : ہم نکالیں گے لَهُمْ : ان کے لیے دَآبَّةً : ایک جانور مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے تُكَلِّمُهُمْ : وہ ان سے باتیں کرے گا اَنَّ النَّاسَ : کیونکہ لوگ كَانُوْا : تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیت پر لَا يُوْقِنُوْنَ : یقین نہ کرتے
اور جب ان کے بارے میں (عذاب کا) وعدہ پورا ہوگا تو ہم ان کے لئے زمین میں سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے بیان کردے گا اس لئے کہ لوگ ہماری آیتوں کی پر ایمان نہیں لاتے تھے
(27:82) وقع۔ ماضی واحد ۔ مذکر غائب۔ وقع یقع وقوع (باب فتح سے) وقع القول علیہم واجب ہونا۔ وقع الحق ثابت ہونا۔ وقع الشیء من الید کسی چیز کا ہاتھ سے گرنا۔ اذا وقع القول علیہم جب ان پر (ہماری) بات (کا پورا ہونا) واجب آ ٹھہرے گا۔ یعنی ضروری ہوجاوے گا۔ القول۔ اس کے کئی مصداق ہوسکتے ہیں۔ مثلاً قیام الساعۃ۔ قیامت کا وقوع پذیر ہونا۔ قیامت کی نشانیوں کا ظہور پذیر ہونا۔ عذاب و سزا کے وعدے جو ان سے کئے گئے تھے۔ جملہ وعدہ وعید جن کے لئے یہ لوگ جلدی مچا رہے تھے۔ یعنی جب ان سب کے متعلق اللہ کے فرمان کے پورا ہونے کا وقت آلگے گا۔ دابۃ۔ مادہ د ب ب ۔ الدب والدبیب (ضرب) کے معنی آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں یہ لفظ حیوانات اور زیادہ تر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے یہ لفظ گو عرف عام میں خاص کر گھوڑے پر بولا جاتا ہے مگر لغتہ ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے قرآن مجید میں اور جگہ ہے واللہ خلق کل دابۃ من مائ (24:25) اور خدا نے ہر چلتے پھرتے جانور کو پانی سے پیدا کیا دابۃ الارض کا پیدا ہونا قیامت کی اخیر ترین علامت ہے اس عجیب ترین حیوان کا نام حدیث شریف میں جساسہ آیا ہے ۔ اس کے قدوقامت، مقام خروج وغیرہ کے متعلق بڑی تفصیلات روایات میں مذکور ہیں ۔ لیکن امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ :۔ خوب جان لو کہ کتاب اللہ ہیں ان امور پر کوئی دلالت نہیں ۔ جو چیز صحیح حدیث میں سے ثابت ہوگی وہ مان لی جائے ورنہ اس کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔ تکلمہم : تکلم مضارع واحد مؤنث غائب تکلیم (تفعیل) مصدر۔ ضمیر کا مرجع دابۃ الارض ہے ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب وہ ان سے کلام کرے گا۔ وہ ان سے بولے گا۔ ضمیر ھم کا مرجع کیا ہے اس کے متعلق دو صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) ابن عمر ؓ کا قول ہے کہ دابۃ الارض کا وقوعہ اس وقت ہوگا جب زمین پر کوئی نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا نہ رہے گا۔ ابن مردویہ نے ایک حدیث ابو سعید خدری سے نقل کی ہے کہ یہی بات انہوں نے خود حضور ﷺ سے سنی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب انسان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دے گا تو قیامت قائم ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ ایک جانور کے ذریعہ سے آخری مرتبہ حجت قائم فرمائے گا (تفہیم القرآن) اس صورت میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب ان لوگوں کے لئے ہے۔ (2) ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دابۃ الارض کے پاس حضرت علیمان (علیہ السلام) کی انگوٹھی ہوگی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا۔ وہ عصا سے مونوں کے چہرے منور کرے گا۔ اور کافروں کی ناک پر انگوٹھی سے مہر کرے گا (الخازن۔ ابن کثیر) اس صورت میں ہم ضمیر جملہ مؤمنین و کافرین جو اس وقت ہوں گے ان کے لئے ہے۔ ان الناس کانوا بایتنا لایوقنون (کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے) اس کی بھی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں : (1) یہ کہ ایتنا میں ضمیر جمع متکلم اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے اور جمع کا صیغہ تعظیم و تکریم کے لئے لایا گیا ہے یعنی دابۃ الارض لوگوں سے کہہ گا۔ کہ وہ ہماری (اللہ تعالیٰ کی) آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ اس (دابۃ الارض) کے کلام کو اپنے الفاظ میں فرما رہے ہیں۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کلام کی حکایت ہے۔ (2) دابۃ الارض کے اپنے کلام کی نقل ہے ۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں :۔ (ا) دابۃ الارض صیغہ جمع متکلم اسی طرح استعمال کرے گا۔ جس طرح حکومت کا کارندہ ” ہم “ کا لفظ اس معنی مٰں بولتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کی طرف سے بات کر رہا ہے نہ کہ اپنی شخصی حیثیت سے اور ایات ربنا ہوگا۔ (ب) نا ضمیر جمع متکلم دابۃ الارض اپنے لئے استعمال کرے گا۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا کہ وہ ہمارے خروج پر یقین نہیں کرھتے تھے۔ اور اب یہ خروج ان کی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ خروج کو آیات میں ہی شمار کیا گیا ۔ کیونکہ یہ خارق عظیم واقعہ ہوگا۔
Top