Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 82
وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ١ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ۠   ۧ
وَاِذَا : اور جب وَقَعَ الْقَوْلُ : واقع (پورا) ہوجائے گا وعدہ (عذاب) عَلَيْهِمْ : ان پر اَخْرَجْنَا : ہم نکالیں گے لَهُمْ : ان کے لیے دَآبَّةً : ایک جانور مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے تُكَلِّمُهُمْ : وہ ان سے باتیں کرے گا اَنَّ النَّاسَ : کیونکہ لوگ كَانُوْا : تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیت پر لَا يُوْقِنُوْنَ : یقین نہ کرتے
اور جب اُن کے بارے میں (عذاب) کا وعدہ پورا ہوگا تو ہم اُن کے لئے زمین میں سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے بیان کر دے گا۔ اس لئے کہ لوگ ہماری آیتوں پر ایمان نہیں لاتے تھے
واذا وقع القول علیھم دابۃ من الارض اخرجنا لھم دابۃ من الارض . تو ہم زمین سے ایک چوپایہ ان کے لئے برآمد کریں گے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت علی نے فرمایا : وہ دابَّۃ ایسا دابَّۃ نہ ہوگا جس کی دم ہو بلکہ داڑھی والا دابَّۃ ہوگا۔ آپ کا اس کلام سے اس طرف اشارہ ہے کہ وہ آدمی ہوگا (چوپایہ نہ ہوگا) لیکن اکثر اہل تفسیر کا قول ہے کہ وہ چوپایہ ہی ہوگا۔ عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ وہ دابہ اون اور رنگا رنگ کے پروں والا ہوگا ‘ اس کی چار ٹانگیں ہوں گی۔ پھر وہ حاجیوں کے پیچھے سے برآمد ہوگا۔ ابن جریح کی روایت ہے کہ ابو الزبیر نے دابَّۃُ الْاَرْض کے حالات اس طرح بیان کئے : اس کا سر بیل کا (جیسا) سر ہوگا ‘ اس کی آنکھیں خنزیر کی آنکھوں (غی طرح) ہوں گی ‘ اس کے کان ہاتھی کے کان (جیسے) ہوں گے ‘ اس کے سینگھ بارہ سینگھے کے سینگھوں (کی مانند) ہوں گے ‘ اس کا سینہ سیر کا سینہ ہوگا ‘ اس کا رنگ چیتے کا رنگ ہوگا ‘ اس کی کوکھیں بلی کی کوکھوں کی طرح ہوں گی ‘ اس کی دم مینڈھے کی دم کی طرح ہوگی ‘ اس کی ٹانگیں اونٹ کی ٹانگوں (کی مثل) ہوں گی۔ ہر دو جوڑوں کے درمیان بارہ ہاتھ کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اس کے پاس موسیٰ کی لاٹھی اور سلیمان کی انگشتری ہوگی۔ ہر مؤمن کے سجدہ کے مقام (پیشانی یا ناک) پر لاٹھی کی نوک سے نشان بنا دے گا جس سے اس کا چہرہ جگمگا جائے گا اور سلیمان کی انگوٹھی سے ہر کافر کے چہرہ کو نشاہ زدہ کر دے گا جس سے اس کا چہرہ کالا ہوجائے گا (یہ نشان اتنے نمایاں ہوں گے کہ) بازاروں میں لوگ خریدو فروخت کرتے وقت (کافروں و مؤمن کی شناخت کرلیں گے اور) کہیں گے اے کافر ! یہ چیز کتنے کی ہے ؟ اے مؤمن ! اس کی کیا قیمت ہے ؟ پھر دابہ لوگوں سے کہے گا : اے فلاں ! تو جنتی ہے ‘ اے فلاں ! تو دوزخی ہے۔ یہی معنی ہے آیت وَاِذَ ا وَقَعَ الْقَوُلُ عَلَیْھِمْ اَخُرَجْنَا لَھُمْ دَآبَّۃً مِّنَ الْاَرْضِ کا۔ بغوی نے حضرت ابن عمر کا قول نقل کیا ہے کہ دابۃ الارض کوہ صفا کے ایک شگاف سے برآمد ہوگا۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس نے احرام کی حالت میں صفا کو لاٹھی سے ٹھوکا اور فرمایا : دابۃ میری لاٹھی کے ٹھوکے کو سن رہا ہے۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا : دابۃ ایک گھاٹی سے برآمد ہوگا۔ اس کا سر بادل کو چھوئے گا اور اس کی ٹانگیں زمین کے اندر ہوں گی ‘ باہر نکلی بھی نہ ہوگی۔ وہ نماز پڑھتے آدمی کی طرف سے گزرے گا اور کہے گا : نماز کی تجھے کیا ضرورت ؟ پھر اس (کے ماتھے یا ناک پر) نشان بنا دے گا۔ بغوی نے حضرت ابو شریحہ انصاری کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : پوری مدت میں تین بار دابہ کا خروج ہوگا۔ ایک بار یمن سے برآمد ہوگا جس کی شہرت بادیہ (صحراء) میں پھیل جائے گی اور قریہ یعنی مکہ میں بھی اس کا تذکرہ پہنچ جائے گا۔ پھر ایک روز سب سے بڑی عزت و عظمت والی مسجد یعنی مسجد حرام میں لوگ جمع ہوں گے کہ دابہ دکھائی دے گا۔ عمرو (راوی) نے کہا : رکن اسود سے باب بنی مخزوم تک درمیان میں دکھائی دے گا اور مسجد کے ہر گوشہ میں موجود لوگوں کو دیکھے گا۔ لوگ اس کو دیکھ کر بکھر جائیں گے لیکن ایک جماعت اس کے سامنے جمی رہے گی۔ وہ سمجھ لیں گے کہ اللہ سے چھوٹ کر وہ کہیں جا نہیں سکتے۔ دابہ اپنے سر سے مٹی جھاڑتا ہوا ان کی طرف گزرے گا اور ان کے چہروں کو (نشان زد کر کے) ایسا روشن کر دے گا جیسے چمکدار ستارے ‘ پھر زمین کو پھاڑتا ہوا چلا جائے گا (اتنی تیزی کے ساتھ) کہ اس کو پکڑنے والا پا نہ سکے گا اور اس سے بھاگنے والا چھوٹ نہ سکے گا۔ پھر کچھ لوگ اٹھ کر نماز پڑھنے لگیں گے تو (تیسری بار) وہ پیچھے سے آپڑے گا اور کہے گا : اے فلاں ! تو اب نماز پڑھ رہا ہے ؟ پھر نماز کے سامنے آکر اس کے چہرہ پر نشان بنا دے گا۔ پھر لوگ وہاں سے ہٹ کر اپنے گھروں کو چلے جائیں گے اور ساتھ ساتھ مل کر سفر کریں گے اور باہم باتوں میں شرکت کریں گے اور کافر کا مؤمن سے امتیاز ہوجائے گا۔ مؤمن کو مؤمن کہہ کر پکارا جائے گا اور کافر کو کافر کہہ کر۔ حضرت حذیفہ بن یمان کا بیان ہے کہ رسول اللہ کے سامنے دابہ کا تذکرہ آیا تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! وہ کہاں سے برآمد ہوگا ؟ فرمایا : سب سے بڑھ کر حتم والی مسجد سے اس وقت عیسیٰ طواف کر رہے ہوں گے۔ مسلمان آپ کے ساتھ ہوں گے کہ قندیل کی حرکت کی طرح ان کے قدموں کے نیچے زمین میں لرزہ پیدا ہوگا اور مشرقی جانب کوہ صفا پھٹ کر اس سے دابہ برآمد ہوجائے گا۔ سب سے پہلے اس کا سر نکلے گا ‘ اس پر اون اور پر ہوں گے۔ کوئی پکڑنے والا اس تک پہنچ نہ سکے گا اور نہ بھاگنے والا اس سے چھوٹ سکے گا۔ وہ لوگوں پر مؤمن و کافر کا نشان بنا دے گا۔ مؤمن کا چہرہ چمکدار ستارہ کی طرح روشن ہوجائے گا۔ اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں کافر لکھا ہوگا۔ رواہ البغوی کذا اخرج ابن جریر۔ بغوی ن یسہل بن صالح کے والد کی روایت سے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو یا تین بار فرمایا : حناد کی گھاٹی بری گھاٹی ہے۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! ایسا کیوں ہے ؟ فرمایا : اس سے دابہ برآمد ہوگا اور تین چیخیں مارے گا جن کو مشرق و مغرب کے درمیان سب سنیں گے۔ اس کا چہرہ مرد کا چہرہ ہوگا اور (باقی) جسمانی بناوٹ پرندے کی ہوگی اور جو اس کو دیکھے گا اس سے وہ کہے گا کہ اہل مکہ محمد ﷺ اور قرآن پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ تکلمھم . وہ دابہ لوگوں سے کہے گا۔ سدی نے کہا : وہ کہے گا کہ سوائے اسلام کے سب مذاہب باطل ہیں۔ بعض نے کہا : اس کا کلام یہ ہوگا کہ ایک کے متعلق کہے گا : یہ مؤمن ہے اور دوسرے کے متعلق کہے گا : یہ کافر ہے۔ جیسا کہ احادیث میں آیا ہے۔ بعض نے کہا : اس کا کلام وہ ہے جو اگلی آیت میں مذکور ہے۔ ان الناس کانوا بایتنا لا یوقنون . کہ (کافر) لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں لاتے تھے۔ مقاتل نے کہا : وہ عربی میں کلام کرے گا اور اللہ کی طرف سے کہے گا : اَنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لاَ یُوْقِنُوْنَ ۔ وہ لوگوں کو خبر دے گا کہ اہل مکہ قرآن اور قیامت پر ایمان نہیں لائے۔ (اَنَّ بفتح ہمزہ کوفی قرأت ہے۔ مقاتل کا قول بھی اسی پر مبنی ہے اور جن لوگوں نے اس کو دابہ کا مقولہ قرار دیا ہے وہ بھی اَنَّ النَّاس پڑھتے ہیں) اور اِنَّ بالکسر جمہور کی قرأت ہے۔ اس قرأت پر یہ کلام استینافیہ ہوگا اور مطلب یہ ہوگا کہ خروج دابہ سے پہلے لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ بعض اہل علم نے کہا کہ آیات سے مراد ہیں خروج دابہ اور دوسری علامات سے قیامت و احوال قیامت۔ یہ سب آیاأ اللہ ہیں۔ حضرت ابنعمر نے فرمایا : یہ خروج دابہ اس وقت ہوگا جب بھلائی کا حکم اور برائی کی ممانعت نہ کی جائے گی۔ شیخ جلال الدین محلی نے لکھا ہے کہ خروج دابہ سے معروف کا حک اور منکر سے بازداشت (کا زمانہ) ختم ہوجائے گا ‘ اس کے بعد کوئی کافر ایمان نہیں لائے گا (ویسی ہی حالت مایوسی ہوجائے گی) جیسی اللہ نے حضرت نوح کے پاس وحی بھیجی تھی کہ جو ایمان لا چکا ‘ لا چلا آئندہ تمہاری قوم میں سے کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا۔ میں کہتا ہوں : اس مضمون میں استنباط مختلف احادث و آثار سے ہوتا ہے۔ فصل : حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : چھ چیزوں سے پہلے اعمال کرلو : الدُّخَان والدَّجَّال ودَابۃُ الاَرضِ وطُلوع الشَّمسِ مِن مَّغزِ بِھَاوَا اَمرْالعَامۃِ خویصَۃُ اَحدِکُم۔ رواہ مسلم۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو کا بیان ہے : میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا کہ سب سے پہلے نشان جو نمودار ہوگا وہ مغرب سے طلوع آفتاب اور دن چڑھے لوگوں کے سامنے دابتہ الارض کا خروج ہوگا۔ ان میں سے جو واقعہ بھی پہلے ہوگا دوسرا عنقریب ہی اس کے بعد ہوجائے گا۔ رواہ مسلم۔ حضرت حذیفہ بن اسد غفاری راوی ہیں : ہم باہم کچھ تذکرہ کر رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ برآمد ہوئے اور فرمایا : کیا تذکرہ کر رہے ہو ؟ لوگوں نے کہا : قیامت کا ذکر کر رہے ہیں۔ فرمایا : قیامت اس وقت تک بپا نہ ہوگی جب تک اس سے پہلے تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو گے۔ پھر آپ نے وہ نشانیاں بتائیں اور فرمایا : دھواں (آسمان پر چھایا ہوا) دجال ‘ دابتہ الارض ‘ مغرب سے آفتاب کا طلوع ‘ عیسیٰ بن مریم کا نزول ‘ یاجوج ‘ تین جگہ زمین کا دھنسایا جانا ‘ ایک مشرق میں ایک مغرب میں ایک جزیرہ العرب میں اور آخر میں ایک آگ یمن سے نکلے گی جو لوگوں کو میدان حشر کی طرف ہنکا کرلے جائے گی۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ ایک آگ قصر عدن سے نکلے گی۔ ایک اور روایت میں دسویں علامت کی جگہ فرمایا ہے : ایک آندھی لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی۔ رواہ مسلم۔ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : دابہ برآمد ہوگا ‘ اس کے پاس موسیٰ کا عصا اور سلیمان کی انگشتری ہوگی ‘ مؤمن کے چہرہ کو لاٹھی کے نشان سے چمکدار بنا دے گا اور کافر کی ناک پر انگشتری کا نشان بنا دے گا یہاں تک کہ لوگ جمع ہوں گے تو ایکدوسرے کو کہے گا : اے مؤمن اور دوسرے کہے گا : اے کافر۔ رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ والحاکم وصححہٗ ۔ حضرت ابو امامہ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : دابہ برآمد ہوگا اور لوگوں کی ناکوں پر نشان لگا دے گا۔ اس کے بعد بھی لوگ (مدت تک) زندہ رہیں گے یہاں تک کہ بعض لوگ جانور خرید کر لائیں گے تو ان سے دریافت کیا جائے گا : تم نے یہ جانور کس سے خریدا ؟ وہ جواب دیں گے : مہرزدہ آدمی سے۔ رواہ احمد۔ حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جمعہ کی رات کو دابہ برآمد ہوگا۔ لوگ منا کی طرف جا رہے ہوں گے۔ ابن ابی شیبہ ‘ عبد بن حمید ‘ ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حسن کا بیان نقل کیا ہے : موسیٰ نے اپنے رب سے خواہش کی کہ مجھے دابتہ الارض دکھا دیا جائے (ا اللہ نے دعا قبول فرمائی اور) چناچہ دابہ تین دن رات (برابر) نکلتا رہا۔ خلا میں جاتا رہا اور اس کا کوئی کنارہ نظر نہ آتا تھا۔ حضرت موسیٰ نے ہیبت ناک منظر دیکھ کر درخواست کی : اے میرے رب ! اس کو لوٹا دے۔ اللہ نے اس کو لوٹا دیا۔ میں کہتا ہوں : احادیث دلالت کر رہی ہیں کہ دابتہ الارض سچے مؤمنوں کو ان منافقوں سے الگ کر دے گا جو زبان سے مؤمن اور دل سے کافر ہوں گے اور کفر سے مراد ہے اس اسلام کی ضد جو (صرف زبانی ہوتا ہے لیکن زبان سے اسلام کا اقرار کرنے والوں کے) دلوں میں نہیں ہوتا بلکہ ایسے لوگوں کے دل اس دین کی تصدیق نہیں کرتے جو رسول اللہ کا لایا ہوا ہے ‘ اس اسلام کو مجازی اسلام کہا جاتا ہے یا کفر سے مراد ہے اس حقیقی اسلام کی ضد جس کے دعویٰ دار دلوں میں بھی ایمان رکھتے اور زبان سے بھی تصدیق کرتے ہیں لیکن اطمینان قلب اور ایمان نفس کے درجہ پر فائز نہیں ہوتے۔ اگر کفر سے موخر الذکر معنی مراد ہو تو دابہ جو بعض لوگوں سے کہے گا : اے فلاں ! تو دوزخیوں میں سے ہے ‘ اس سے مراد یہ ہوگی کہ تو دوزخ میں ضرور جائے گا ‘ یہ مطلب نہ ہوگا کہ تو ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ کفر سے مراد اعلانیہ کفر کا اقرار نہیں ہوسکتا کیونکہ فتح کے بعد مکہ کے اندر علانیہ کفر کا دعویدار کوئی باقی نہیں رہا (نہ آئندہ ہوگا) پھر مؤمنوں سے تمییز کردینے کا کوئی معنی نہیں۔
Top