Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 82
وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ١ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ۠   ۧ
وَاِذَا : اور جب وَقَعَ الْقَوْلُ : واقع (پورا) ہوجائے گا وعدہ (عذاب) عَلَيْهِمْ : ان پر اَخْرَجْنَا : ہم نکالیں گے لَهُمْ : ان کے لیے دَآبَّةً : ایک جانور مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے تُكَلِّمُهُمْ : وہ ان سے باتیں کرے گا اَنَّ النَّاسَ : کیونکہ لوگ كَانُوْا : تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیت پر لَا يُوْقِنُوْنَ : یقین نہ کرتے
اور جب ان پر بات پوری ہوجائے گی تو ہم ان کے لئے زمین سے کوئی جانور نکال کھڑا کریں گے جو ان کو بتائے گا کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے
آیات 82 انسانی مذہب کا جواب ”وقع القول علیھم سے یہ مراد ہے کہ جب ان کے باب میں اللہ کا فیصلہ صادر ہوجائے گا اور سنت الٰہی کے مطابق جس چیز کے وہ مستحق ہیں اس کے ظہور کا وقت آجائے گا۔ علیھم میں ضمیر کا مرجع قریش ہیں جن سے اس سورة میں خطاب ہے اور جو مطالبہ کر رہے تھے کہ قرآن ان کو جس عذاب یا قیامت کی خبر دے رہا ہے جب تک وہ ان کو یا ان کی کوئی نشانی دیکھ نہ لیں گے اس وقت تک وہ ماننے والی نہیں ہیں۔ ان کے اس مطالبے کا ذکر آیات 73-71 میں گزر چکا ہے۔ (آیت الروم :35) ام انزلنا علیھم سلط وس یتکلم بما کانوا بہ یشرکون کیا ہم جانتے ہیں ان پر کوئی دلیل جو شہادت دے رہی ہو ان چیزوں کے حق میں جن کو یہ خدا کی شریک ٹھہراتے ہیں ؟ یہاں ظاہر ہے کہ لفظ تکلم اس عام معنی میں نہیں ہے جس معنی میں ہم بولتے ہیں بلکہ اس کا مفہم کسی چیز کے حق میں دلیل، نشانی یا شہادت ہونا ہے۔ فرمایا کہ اگر یہ متمردین تمہاری بات اس وقت تک ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں جب تک تم ان کو کوئی نشانی عذاب نہ دکھا دو تو اس طرح کی کوئی نشانی دکھا دنیا خدا کے لئے ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔ وہ ان کو توبہ اصلاح کے لئے مہلت دے رہا ہے اس وجہ سے اپنے رسول اور اپنی کتاب کے ذریعہ سے ان کو تعلیم و تذکیر اور انذار تبشیر کر رہا ہے لیکن جب اتمام حجت کا یہ وقت گزر جائے گا اور سنت الٰہی کے بموجب ان کے لئے عذاب ہی کا فصلہ ہوجائے گا تو کوئی نشانی ظاہر کردینے کے لئے خدا کو کوئی اہتمام خاص نہیں کرنا ہے۔ وہ زمین ہی سے کوئی جانور اٹھا کھڑا کرے گا جو اس بات کی شہادت دے دے گا کہ یہ ناہنجارو و پکار لوگ اللہ کی آیات پر یقین کرنے والے نہیں ہیں اس وجہ سے قہر الٰہی کے مستحق ہیں۔ اس اسلوب بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ابھی تو اللہ تعالیٰ آسمان سے اپنی مایت نازل فرما رہا ہے اور اپنے رسول اور اپنی کتاب کے ذریعہ سے ان پر حجت تمام کر رہا ہے لیکن ان کی شامت اعمال سے اگر ان کی ہلاکت کا فیصلہ ہو ہی گیا تو خدا زمین سے کسی جانور کے ذریعہ سے بھی ان پر شہادت دلوا دے گا۔ رسولوں کی تاریخ میں اس طرح کی نشانی کی ایک مثال ناقہ ثمود ہے۔ حضرت صالح کی قوم نے جب ان کی بات کسی طرح نہیں مانی اور برابر اس بات پر مصر ہی رہی کہ اس کو کوئی عذاب کی نشانی دی جائے تو حضرت صالح نے ایک اونٹنی نامزد کردی کہ یہ عذاب کی نشانی ہے۔ اگر تم نے اس کو کوئی گزند پہنچایا تو تم پر قہر الٰہی ٹوٹ پڑے گا چناچہ جو نہی انہوں نے اس کو گزند پہنچایا اللہ کا عذاب ان پر آدھمکا۔ اس آیت کی یہ تاویل میرے فہم کے حد تک، قرآن کے الفاظ، نظام اور اس کے نظائر کی روشنی میں بالکل واضح ہے لیکن ہمارے مفسرین اس کے تحت ایک عجیب و غریب دآبۃ کا ذکر کرتے ہیں جو قیامت کے قریبظاہر ہوگا میرے نزدیک اس کا تعلق اس آیت سے نہیں بلکہ آثار قیامت کی روایات سے ہے ان روایات کو نقد حدیث کی کسوٹی پر پر رکھ دیکھیے۔ اگر وہ اس کسوٹی پر پوری اتریں تو ان کو قبول کیجیے ورنہ رو کردیجیے۔ یہاں یہ امر بھی یاد رکھیے کہ قریش کو یہ دھمکی جو دی گئی تھی وہ اس شرط کے ساتھ مشروط تھی کہ جب ان کے بارے میں خدا کا فلہوٹ ہوجائے گا۔“ اگر قریش اپنی ضد پر اڑے رہ جاتے تو ان کو لازماً اسی عذاب سے سابقہ پیش آتا جس کی اس آیت میں و عہد ہے لیکن معلوم ہے کہ قریش کی اکثریت آہستہ آہستہ مشرف بہ اسلام ہوگئی اس وجہ سے ان پر اس طرح کا کوئی فیصلہ کن عذاب نہیں آیا جس قسم کا عذاب عاد وثمود اور دوسری قوموں پر آیا بلکہ ان کے اشرار اہل حق کے ساتھ تصادم میں ختم ہو گئے
Top