Tadabbur-e-Quran - An-Najm : 6
وَ اِخْوَانُهُمْ یَمُدُّوْنَهُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ
وَاِخْوَانُهُمْ : اور ان کے بھائی يَمُدُّوْنَهُمْ : وہ انہیں کھینچتے ہیں فِي : میں الْغَيِّ : گمراہی ثُمَّ : پھر لَا يُقْصِرُوْنَ : وہ کمی نہیں کرتے
عقل و کردار کے توانا ، وہ نمودار ہو ا
(زومرہ فاستوی وھو بالافق الاعلی ثم دنا فتدلی فکان قاب قوسین اوا دنی فاوحی الی عبدہ ما اوحی) (6، 10) (جبریل ؑ کا طریقہ تعلیم) ذو مرۃ، کا تعلق شدید القوی سے ہے اس وجہ سے اس کی ضاحت ہم نے شدید القوی کے ساتھ ہی کردی ہے۔ اب فاسنوی سے آگے اس تعلیم کے طریقہ کی وضاحت ہو رہی ہے جس کا ذکر اوپر علمہ کے لفظ سے ہوا ہے۔ فرمایا کہ اس مقرب فرشتے نے نبی کو نہایت اہتمام، توجہ اور شفقت سے اس وحی کی تعلیم دی جو اللہ نے اس پر نازل کرنی چاہی۔ فاستری میںتفصیل کے لیے ہے۔ یعنی پہلے وہ اپنی اصل صورت میں مستوی القامت ہو کر، نمو دار ہوا۔ اس کے نمودار ہونے کی جگہ آسمان کی افق اعلیٰ میں تھی۔ افق اعلیٰ سے مراد وہ افق ہے جو سمت راس میں ہوتا ہے۔ اگرچہ کوئی چیز سمت راس کے افق سے نمایاں ہوگی تو چودھویں کے چاند اور دوپہر کے سورج کی طرح وہ بالکل صاف شفاف، جلی اور غیر مشتبہ صورت میں نظر آئے گی۔ اس کے برعکس مشرق یا مغرب یا شمال یا جنوب کے افق سے اگر کوئی چیز نمودار ہوگی تو وہ خفی صورت میں نمودار ہوگی جس طرح پہلی کا چاند نکلتا ہے۔ مقصود اس وضاحت سے یہ ہے کہ حضرت جبریل ؑ اپنی اصلی ہیئت میں پیغمبر ﷺ کے لیے افق اعلیٰ کے سٹیج پر نمودار ہوئے اور آنحضرت ﷺ نے کھلی آنکھوں سے ان کا اچھی طرح مشاہدہ کیا۔ ثم دنا فتدلی، تدلی۔ کے معنی جھک پڑنے یا لٹک آنے کے ہیں۔ یہ بیان ہے اس بات کا کہ اس کے بعد حضرت جبریل ؑ آنحضرت ﷺ کو تعلیم دینے کے قصد سے آپ کے قریب ہوئے اور جس طرح شفیق اور بزرگ استاد اپنے عزیز و محبوب شاگرد پر غایت شفقت سے جھک پڑتا ہے اسی طرح وہ آپ کے اوپر جھک پڑے۔ یعنی یہ نہیں ہوا کہ دور سے اپنی بات پھینک ماری ہو اور اس امر کی پروا نہ کی ہو کہ آپ نے بات اچھی طرح سنی یا نہیں اور سنی تو سمجھی یا نہیں بلکہ پورے التفات و اہتمام سے اس طرح آپ کے کان میں بات ڈالی کہ آپ اچھی طرح سن اور سمجھ لیں، یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ کاہنوں کے شیاطین کا جو علم ہوتا ہے اس کو قرآن نے نطف الخطفۃ (الصفت : 10) سے تعبیر کیا ہے یعنی اچکی ہوئی بات، جس طرح چور اور اچکے کوئی چیز اچک لیتے ہیں، ظاہر ہے کہ جب استاد آ چکے ہیں تو وہ اپنے شاگردوں کو تعلیم بھی اچکوں ہی کی طرح دیتے ہوں گے۔ قرآن نے یہاں حضرت جبریل ؑ کے طریقہ تعلیم کو اس لیے نمایاں فرمایا ہے کہ دونوں کا فرق اچھی طرح واضح ہو سکے۔ (فکان قاب قوسین او ادنی) قاب کے معنی بقدر کے ہیں یہ غایت قرب و اتصال کی تعبیر ہے، یعنی حضرت جبریل ؑ آنحضرت ﷺ سے اتنے قریب ہوگئے کہ بس دو کمانوں کے بقدر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ اس تشبیہ میں اہل عرب کے ذوق کا بھی لحاظ ہے۔ اہل عرب تیر و کمان والے لوگ تھے اس وجہ سے غایت قرب کی تعبیر کے لیے ایک کمان یا دو کمانوں کے بقدر کی تشبیہ استعمال کرتے تھے، جس طرح ہم ایک گز یا دو گز کے الفاظ بولتے ہیں۔ او یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرر ہا ہے کہ یہ تشبیہ محض قرب کی تعبیر کے لیے ہے، یہ فاصلہ اس سے بھی کم ہو سکتا ہے۔ (فاوحی الی عبدہ ما اوحی) اوحی۔ کا فاعل اللہ تعالیٰ بھی ہوسکتا ہے اور حضرت جبریل ؑ بھی۔ پہلی صورت میں بالکل واضح ہے کہ اس اہتمام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے یعنی رسول اللہ ﷺ کی طرف جو وحی کرنی تھی وہ کی۔ دوسری صورت میں مصاف الیہ کی ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ ہوگا، یعنی اس توجہ اور اہتمام کے ساتھ جبریل ؑ نے اللہ کے بندے کی طرف جو وحی کرنی تھی وہ کی یا وہ حی کی جو اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑ کو کرنے کے لیے ہدایت فرمائی۔ میرا رجحان پہلے قول کی طرف ہے، ویسے دوسرے قول میں بھی کوئی خاص قباحت نہیں ہے۔ بعض صوفیوں نے اس سے یہ بالکل غلط نتیجہ نکالا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کو حضرت جبریل ؑ کا بندہ قرار دیا ہے۔ ہم اس کتاب میں جگہ جگہ، مثالوں کی روشنی میں، واضح کرتے آ ہے ہیں کہ ضمیروں کے مرجع کا تعین قرینہ سے ہوتا ہے۔ انتشار ضمیر ہر صورت میں عیب نہیں ہے بلکہ بعض صورتوں میں اس سے ایجاز کا فائدہ ہوتا ہے جو کلام عرب میں داخل بلاغت ہے۔
Top