Ashraf-ul-Hawashi - Al-An'aam : 69
وَ مَا عَلَى الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ لٰكِنْ ذِكْرٰى لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَمَا : اور نہیں عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَتَّقُوْنَ : پرہیز کرتے ہیں مِنْ : سے حِسَابِهِمْ : ان کا حساب مِّنْ : کوئی شَيْءٍ : چیز وَّلٰكِنْ : اور لیکن ذِكْرٰي : نصیحت کرنا لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : ڈریں
اور پرہیز گاروں کو ان لوگوں کا جو (ہماری آیتوں کو کریدتے ہیں) کوئی حساب نہیں دینا ہوگا لیکن نصیحت تو کرنا چاہیے شاید وہ بھی آئندہ اس برے کام سے) بچیں2
2 حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب مشرکین کے ساتھ بیٹھنے کی ممانعت ہوگئی تو مسلمانوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ اس قطع تعلق کی صورت میں ہم نہ مسجد میں جاسکتے ہیں اور نہ طواف کرسکتے ہیں اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ تم ان کے پا بیٹھ سکتے ہو لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کو نصحیت کرتے رہو شاید کہ وہ اس قسم کی یا وہ گوئی سے باز آجائیں ( کبیر قرطبی) مگر اس صورت میں بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت سورة نسا انکم اذا مثلھم سے منسوخ ہے (دیکھئے نسا آیت 140) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یعنی کوئی جانے کہ ایسے جاہلوں کو پاس نصیحت کو بھی نہ بیٹھو تو اپنے اوپر گناہ نہیں ان کے گمراہ رہنے کا لیکن نصیحت بہتر ہے کہ شاید ان کو ڈرہو تو نصیحت والا ثواب پاوے۔ (مو ضح) اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ پرہیز گا اگر ان کی مجلس میں بیٹھ جائیں تو کچھ حرج نہیں ہے لیکن ہم نے اعراض کا جو حکم دیا ہے تو اس کی نصحیت کے پیش نظر کہ شاید تمہارے اعراض کی وجہ سے وہ اس قسم کی بیہودگی سے باز آجائیں واللہ اعلم (ابن کثیر )
Top