Asrar-ut-Tanzil - Yunus : 31
قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ مَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ١ؕ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ١ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
قُلْ : آپ پوچھیں مَنْ : کون يَّرْزُقُكُمْ : رزق دیتا ہے تمہیں مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان وَالْاَرْضِ : اور زمین اَمَّنْ : یا کون يَّمْلِكُ : مالک ہے السَّمْعَ : کان وَالْاَبْصَارَ : اور آنکھیں وَمَنْ : اور کون يُّخْرِجُ : نکالتا ہے الْحَيَّ : زندہ مِنَ : سے الْمَيِّتِ : مردہ وَيُخْرِجُ : اور نکالتا ہے الْمَيِّتَ : مردہ مِنَ : سے الْحَيِّ : زندہ وَمَنْ : اور کون يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ : تدبیر کرتا ہے کام فَسَيَقُوْلُوْنَ : سو وہ بول اٹھیں گے اللّٰهُ : اللہ فَقُلْ : آپ کہہ دیں اَفَلَا تَتَّقُوْنَ : کیا پھر تم نہیں ڈرتے
فرمائیے تم کو آسمان اور زمین سے کون رزق دیتا ہے یا کون مالک ہے (تمہارے) سننے اور دیکھنے کا اور کون ہے جو جاندار چیز کو بےجان سے نکالتا ہے اور بےجان کو جان دار شے سے نکالتا ہے اور کون ہے جو (سب) کاموں کی تدبیر (انتظام) کرتا ہے ؟ پس وہ کہیں گے کہ اللہ۔ سو فرمائیے کیا تم (اس سے) ڈرتے نہیں
آیات 31 تا 40 اسرار و معارف اگر انھیں اب بھی اس بات کی سمجھ نہ آئی ہو تو آپ ان سے پوچھتے کہ ذرایہ بتاؤ ! آسمانوں سے پانی برسا کر کھیتیاں اور پھل کون اگاتا ہے اور ارض وسما کی نعمتوں کو کون پیدا کرتا ہے اور تمہاری خدمت پہ لگا دیتا ہے ۔ یہ ہوا ، یہ فضا ، یہ طرح طرح کے پھل چشمے جانور دورھ گھی اور گوشت یہ تمہاری زندگی کے سامان کون پیدا کرتا ہے ؟ ارے یہ تو خارجی چیزیں ہیں خود تمہارے وجود کے اندر جو نعمتیں رکھی ہیں مثلا حواس ہی کو لے لوتویہ آنکھ کان وغیرہ تمہارے وجود کا حصہ ہونے کے باوجود کس کے قبضہ قدرت میں ہیں کہ جب چاہتا ہے میں روشن کردیتا ہے اور جب چاہتا ہے یہ کام چھوڑ بیٹھتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بےجان قطرے سے تمہیں زندہ انسان کس نے بنادیا اور کون ہے جو زندوں کو اس نعمت سے محروم کرکے موت کی اتھا ہ گہرائیوں میں جانے پہ مجبور کردیتا ہے اور یہ سب کچھ محض اچانک نہیں ایک مسلسل پروگرام کے تحت ہورہا ہے۔ زندگی اور موت کا یہ تسلسل انسانی شمار سے باہر ہے ۔ کوئی نہیں جانتا ایک لمحے میں کتنے انسان حیوان پرندے درخت گھاس کے تنکے جڑی بوٹیاں چشمے دریا بادل اور ذرات ریگز ار موت کی آغوش میں چلے گئے صفحہ ہستی سے نابودہوگئے ۔ اور اسی لمحے میں کس قدرنئے تخلیق ہوگئے ۔ توکون ہے جو اس تمام نظام کی تدبیر کرتا ہے چونکہ یہ سب کچھ نہ تو کسی بت سے ہوسکتا ہے کہ وہ تو اپنے حال سے بھی بیخبر ہے اور نہ کسی انسان فرشتے یا جن وغیرہ کے بس کی بات ہے تولا محالہ یہی جواب ہوگا کہ یہ سب تو اللہ ہی کرتا ہے تو فرمائیے تمہیں اس سے حیا نہیں آتی کہ عاجر مخلوق کو اس کے برابر درجہ دیتے ہو اور خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی پوجا کرتے ہو۔ ہاں ! یہی تمہارا پروردگار ہے یعنی پیدا کرنے والا بھی پالنے والا بھی ہر وقت ہر ضرورت پوری کرنے والا بھی اور پھر اپنی نعمتوں کا حساب لینے والا بھی اطاعت پہ انعام اور نافرمانی پہ سزادینے والا بھی کہ یہ امورربیت کا خاصہ ہیں اور یہی حق ہے اور یادرکھو حق کے علاوہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ باطل ہوتا ہے اور ناحق یعنی گمراہی کا سامان ہوتا ہے ۔ ایسا کوئی درجہ نہیں کہ آدمی اسلام پہ عمل نہ کرے مگر وہ گمراہی کی طرف بھی نہ جائے اور درمیان میں لٹکتا رہے بلکہ ہر کام اور ہر بات یا تو حق ہوگی اور یا پھر ناحق اور گمراہی ۔ تو اے لوگو ! تم حق کو چھوڑکرکیوں پریشانی کے صحرا میں تباہی کو آوازیں دے رہے ہو۔ لیکن اللہ کے ارشادات کس قدرکھرے اور ثابت ہیں کہ گناہ کا اثر کس قدرشدید ہوتا ہے کہ اتنی واضح اور صاف بات کے باوجود بدکاروں کو ہدایت نصیب نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ اللہ کریم نے بتا دیا تھا کہ گناہوں کی بھی ایک حد ہے جو اس سے گزرجائے اس کا دل تباہ اور سیاہ ہوکرہدایت کی استعداد ہی کھو بیٹھتا ہے لہٰذا ایسے لوگ ایمان سے مشرف نہ ہوں گے۔ ذرا ان سے پوچھئے ! جن ہستیوں کو تم اللہ کے برابر پکار تے ہو یا اپنی ضرورتیں پورا کرنے والا جانتے ہو کیا ان میں سے کسی نے عدم سے کوئی وجود پیدا کیا یا ان میں یہ قوت ہے کہ فناکے بعد مخلوق کو دوبارہ زندہ کریں ؟ ہرگز نہیں ! کہ وہ تو خود کسی کے پیدا کردہ اور موت کا شکار ہیں اور پھر اٹھ کر اس کی بارگاہ میں جواب دہی کے لئے حاضر ہونے والے ہیں ہاں ! یہ سن لو کہ اللہ نے مخلوق کو عدم سے پیدا بھی فرمایا ہے انھیں موت بھی دیتا ہے اور سب کو پھر سے زندہ بھی کرے گا تم بھلا کہاں خاک چھانتے پھر تے ہو۔ کیا تمہارے باطل خیال کے مطابق جو مفروضہ الٰہ ہیں وہ کسی کی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں کہ راہ حیات میں اس کی دستگیری فرما کر اسے بہتر انجام پر پہنچنے کی راہ تباسکیں ۔ ہرگز نہیں بلکہ یہ صرف اللہ کی ذات ہے جو آنے والے امور غبیہ پر بھی انسانوں کو آگاہ فرما کر مصیبت سے بچنے اور راحت کو پانے کا طریقہ بتاتا ہے اور صحیح صحیح راہنمائی فرماتا ہے تو ذرا غورکرو ! کیا اس کی اطاعت کی جائے گی جو رہنمائی فرماتا ہے یا ان بتوں کے پیچھے چلنا چاہیئے جو راہنمائی تو کیا کریں گے خودانھیں بھی اٹھا کرلے جانا پڑے ؟ یوں تو بڑے دانا بنتے ہویہاں تمہاری عقلیں کیا ہو میں اور تم کیسے عجیب فیصلے کرتے ہو کہ اللہ کو چھوڑکرتبوں کی پر ستش میں لگے ہو۔ حق یہ ہے کہ مشرکین محض اوہام کی زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں اور محض گمان کے پیچھے چلتے ہیں ۔ لیکن وہم اور گمان انسان کو حق سے بےنیاز تو نہیں کرسکتے وہ نتائج تو پیدا نہیں کرتے جو حق سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اللہ کریم تو ان کے سب اعمال سے ذاتی طور پر واقف ہیں اور سب جانتے ہیں ۔ اعجاز القرآن یہ کتاب ایسی کتاب نہیں کہ اللہ کے علاوہ کسی اور نے تصنیف کردی ہو اور اللہ کے نام پر لگادی ہو۔ یہ عقلا محال ہے ، اس لئے کہ اس نے تاریخ کے اس دور کو بھی موضوع بحث بنایا ہے جس کے حالات کا آج کے انسان تک صحیح حالت میں پہنچنا ممکن ہی نہ تھا نہ کوئی ایسا تحریری تسلسل موجود تھا اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ اللہ کی ذات اس کی صفات اور آخرت حساب وکتاب نیز فرشتوں کے وجود اور اس طرح کے تمام امور غیبیہ میں جو عقائدو نظریات پہلے انبیاء اور پہلی کتابوں میں بیان ہوئے ۔ سرموان سے انحراف نہیں کرتا بلکہ ان تمام حقائق کی تصدیق کرتا ہے حالا ن کہ ماننے والے لوگ اٹھ چکے اور کتابیں مرور زمانہ کی نذرہوکر تبدیل ہوچکیں ۔ حقائق انسانوں کی دسترس دورچلے گئے مگر قرآن حکیم نے بھی ان تمام امور میں اسی ناقابل تبدیل حقیقت کی طرف دعوت دے کر پہلی کتب کی تصدیق بھی کردی ۔ پھر اس نے بہت سے عقلی مضامین پر بحث فرمائی ہے اور کھل کر فرمائی ہے مثلا انسانی تخلیق اور تعمیربدن کے امرحل کو کس خوش اسلوبی سے بیان کیا ۔ اگر عقل سے کام لیا جائے تو اس دور میں یہ سب کچھ بتاناانسان کے بس میں کب تھا ۔ بارشوں کے نظام کی بات کرلوپھلوں کے پکنے کی بحث ہو یا سبزے کے اگنے کی معاشرتی اقدار ہوں یا اخلاقی حدود تعلقات کا پہلوذاتی خاندانی اور گھریلوہویا قومی اور ملکی ہر بات کو کھل کر بیان فرمایا۔ حتٰے کہ بندے اور اس کے خالق کے تعلقات کیسے بنیں گے اور ان میں بگاڑکب اور کہاں شروع ہوتا ہے کیوں شروع ہوتا ہے ؟ اگر ان سب امور کو غوروفکر سے جانچاجائے تو ایسی ناقابل تردید حقیقتیں جن میں کبھی ترمیم واصلاح کی ضرورت بھی پیش نہ آئی ہو۔ یہ صرف اسی ہستی کی شان ہے کہ وہ بیان فرمائے جو تمام جہانوں کے بنانے اور چلانے والی ہے ۔ عقلا بھی ثابت ہے کہ اس میں رائی برابر شبہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ” صدق اللہ العظیم “۔ اور اگر تمہیں ابھی تک شبہ ہو تو ذرا ایک ہی بات اتنی یقینی اتنی کھری اور اتنی خوبصورت کہہ دو ۔ نہ صرف اکیلے بلکہ اللہ کے سوا جس قدرمعبودان باطل تم نے اپنا رکھے ہیں سب کو ساتھ ملاتم پوری کتاب نہ سہی کسی موضوع پہ ایسی بات کہہ دوجوحسن ادب اور معیارصداقت میں کتاب اللہ کے ہم پلہ ہو تو پتہ چل سکے گا کہ یہ بات انسان کے بس میں ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ یہ کتاب بھی انسانی کوشش ہو۔ لیکن ایسا ہرگز ممکن نہیں جو پھر ایک بہت بڑی عقلی دلیل ہے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ مگر ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں اتنی عقل بھی نہیں اللہ نے تو استعداد بخشی تھی مگر انھوں نے گناہ کرکے اس کو ضائع کردیا یا کمزور کردیا ۔ اب بات ان کی سمجھ سے بالا تر ہے بات تو صحیح بھی ہے اور صحیح مقام پر بھی ہے مگر یہ خود پستیوں میں گرچکے ہیں ۔ لہٰذا انکار کر بیٹھے ہیں یا تو اپنی کمزوری کا اقرار کرتے تو بہ کرتے اور واپس اپنے مقام پر آتے مگر یہ دوسرے راستے پر چل پڑے کہ ہم تو درست ہیں معاذ اللہ یہ کتاب درست نہیں ہے۔ اور یہ بہت خطرناک راستہ ہے کہ اے مخاطب ! ذرا آنکھ اٹھا کر پردئہ تاریخ میں دیکھ کہ ان سے پہلے جن اقوام نے اسی طرح کا انکار کیا اور اس ظلم کے مرتکب ہوئے وہ کس قدربھیانک انجام سے دوچار ہوئے لہٰذا یہ بھی اگر باز نہ آئے تو اسی انجام سے دوچار ہوں گے۔ اللہ کریم جانتا ہے کہ بعض خوش نصیب جو غورکریں گے یقینا نور ایمان سے مشرف ہوں گے اور بعض بدبخت کفر پر ہی قائم رہیں گے اور ایسے فسادی جو کفر پہ رہتے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے بچ نہ سکیں گے کہ ان کے حال سے اچھی طرح واقف ہے۔
Top