Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Yunus : 31
قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ مَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ١ؕ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ١ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
قُلْ
: آپ پوچھیں
مَنْ
: کون
يَّرْزُقُكُمْ
: رزق دیتا ہے تمہیں
مِّنَ
: سے
السَّمَآءِ
: آسمان
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
اَمَّنْ
: یا کون
يَّمْلِكُ
: مالک ہے
السَّمْعَ
: کان
وَالْاَبْصَارَ
: اور آنکھیں
وَمَنْ
: اور کون
يُّخْرِجُ
: نکالتا ہے
الْحَيَّ
: زندہ
مِنَ
: سے
الْمَيِّتِ
: مردہ
وَيُخْرِجُ
: اور نکالتا ہے
الْمَيِّتَ
: مردہ
مِنَ
: سے
الْحَيِّ
: زندہ
وَمَنْ
: اور کون
يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ
: تدبیر کرتا ہے کام
فَسَيَقُوْلُوْنَ
: سو وہ بول اٹھیں گے
اللّٰهُ
: اللہ
فَقُلْ
: آپ کہہ دیں
اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
: کیا پھر تم نہیں ڈرتے
اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے کون ہے جو رزق دیتا ہے تمہیں آسمان سے اور زمین سے یا کون ہے وہ جو مالک ہے کانوں کا اور آنکھوں کا۔ اور کون ہے جو نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے۔ اور کون ہے وہ جو تدبیر کرتا ہے تمام معاملے کی یقینا کہیں کے یہ لوگ کہ اللہ ہی ہے تو آپ کہہ دیجئے پھر کیوں نہیں تم ڈرتے
ربط آیات۔ گذشتہ آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے حشر کے عنوان سے توحید کا مسئلہ بیان فرمایا تھا۔ یعنی حشر کے میدان میں مشرکین کا شدید محاسبہ ہوگا اور ان کی سخت تذلیل ہوگی۔ اس طرح گویا اللہ نے شرک اور مشرکین کا رد فرمایا۔ اب آج کے درس کا مضمون بھی توحید کے حق میں اور شرک کی تردید میں ہے۔ اس کے بعد پھر اس سورة کے مرکزی مضمون قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت کا ذکر آئے گا۔ آج کی آیات میں توحید کے عقلی دلائل پیش کیے گئے ہیں اور ان کا انداز یہ ہے کہ اس سوال کا جواب طلب کیا گیا ہے کہ ت میں داخلی نعمتیں عطا کرنے والی کونسی ذات ہے انسان ذرا بھی غور وفکر کرے گا۔ تو اس کا جواب یہی ہوگا کہ تمام نعمتیں مہیا کرنے والا فقط خدا تعالیٰ ہے جب یہ بات ہے تو پھر مشرکین سے اگلا سوا ہے کہ پھر خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے ہو ، ان سے کیوں ڈرتے ہو اور ان کی عبادت کیوں کرتے ہو ؟ روزی رساں ذات ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” قل “ اے پیغمبر ! آپ ان لوگوں سے دریافت کریں (آیت) ” من یرزقکم من السماء والارض “ تم کو کون روزی پہنچاتا ہے آسمان سے اور زمین سے۔ جاندار مخلوق کی روزی کا تعلق آسمان سے بھی ہے اور زمین سے بھی۔ آسمان سے بارش نازل ہوتی ہے اور زمین میں روئیدگی کا مادہ ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں مل کر اجناس اور پھل کی پیدائش کا سبب بنتی یہ۔ سورة الذاریات میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے (آیت) ” وفی السماء رزقکم وما توعدون “ تمہاری روزی اور تم سے وعدہ شدہ چیز کا تعلق آسمان سے ہے۔ ان چیزوں کا حکم عالم بالا سے آتا ہے۔ رزق کا معاملہ تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کے ساتھ سمندروں سے بخارات کو اٹھاتا ہے ، پھر وہ بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں جن میں بڑی مقدار میں پانی ہوتا ہے پھر ہوائیں ان بادلوں کو لے کر چلتی ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ اپنی مصلحت کے مطابق جہاں چاہتا ہے اور جتنی مقدار میں چاہتا ہے اتنی بارش برسا دیتا ہے ادھر زمین کو بھی حکم ہوتا ہے (آیت) ” والارض ذات الصدع “ (الطارق) زمین پھٹ جاتی ہے اور اس کے اندر سے اللہ تعالیٰ انسانوں اور جانوروں کے لیے رزق کو اگاتا ہے۔ گزشتہ آیات میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ جانوروں کا کھانا بھی مقصودی ہوتا ہے۔ سورة اعلی میں موجود ہے (آیت) ” والذی اخرج المرعی “ اللہ ہی زمین سے چارہ پیدا کرتا ہے جو جانوروں کی خوراک بنتا ہے اور پھر یہی جانور اللہ کے حکم سے انسان کی خدمت پر مامور ہیں۔ ان کی روزی کا سامان بھی خدا تعالیٰ نے ہی مہیا فرمایا ہے۔ سماعت اور بینائی رزق کا مسئلہ بیان کرنے کے بعد آگے اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کے دو نہایت ہی اہم اعضاء کا ذکر فرمایا ہے اور مشرکین سے پوچھا ہے کہ بھلا بتائو کہ ان اعضا کا مالک کون ہے ؟ ارشاد ہوتا ہے اے بنی کریم ! آپ ان سے یہ بھی دریافت کریں (آیت) ” امن یملک السمع والابصار “ کہ کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ؟ انسانی جسم کے یہ اہم ترین اعضا کس نے پیدا کئے ہیں ؟ سمع کا مطلب ظاہر کان بھی ہوسکتے ہیں اور اس سے قوت سامعہ بھی مراد لی جاسکتی ہے۔ اسی طرح آنکھوں سے ظاہری آنکھوں کے علاوہ قوت بنیائی بھی مراد لی جاسکتی ہے۔ مطلب بہر حال یہی ہے کہ کانوں اور آنکھوں یا قوت سامعہ اور قوت باصرہ کا مالک کون ہے ؟ انسانی جسم کی یہ دو چیزیں اللہ نے بطور نشانی بیان فرمائی ہیں۔ جس طرح آسمان اور زمین اللہ کی عظیم نشانیاں ہیں۔ اسی طرح کان اور آنکھ بھی اللہ کی عظیم نعمتیں اور اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ فرمایا ان کا مالک کون ہے ؟ ان کا صانع کون ہے اور ان میں سماعت اور بصارت کی قوت پیدا کرنے والی کون ذات ہے۔ اعضائے انسانی کی حکمت اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سے اعضاء عطا فرمائے ہیں ان میں سے بعض ایک ایک ہیں اور بعض دو دو۔ انسانی جسم کے لیے جن اعضاء سے زیادہ کام لینا مقصود ہے ان کو دو کی تعداد میں پیدا کیا گیا ہے اور جن اعضاء سے نسبتا کم کام مطلوب ہے ، ان کی تعداد ایک ایک ہے ، مثلا ہاتھ اور پائوں سے زیادہ کام لیا جاتا ہے اس لیے یہ دو دو ہیں۔ کان اور آنکھیں بھی انسان کے لیے نسبتا زیادہ خدمت پر مامور ہٰں ، لہٰذا ان کی تعداد بھی دو دو ہے برخلاف اس کے اللہ نے انسان کو زبان صرف ایک عطا کی ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ انسان کو سننے اور دیکھنے کی نسبت بولنا کم چاہیے ، زیادہ بولنا اکثر باعث وبال ہوتا ہے ہمیشہ تھوڑی بات کرے مگر اچھی کرے ، کوئی ایسی لغو بات نہ کرے جو قابل مواخذہ ہو۔ بہرحال دریافت یہ کیا گیا ہے کہ کان اور آنکھ جیسی عظیم نعمتیں کس نے پید کی ہیں ؟ کیا یہ کسی ڈاکٹر ، انجینئر ، سائنسدان یا ماہر صناع کی تیار کردہ ہیں ؟ اور پھر ان میں قوت سماعت اور قوت بصارت کس نے پیدا کی ہے ؟ ظاہر ہے یہ قوی بھی اللہ ہی کے پیدا کردہ ہیں وہ جب چاہتا ہے ان میں بگاڑ پیدا کردیتا ہے یا یہ قوی بالکل ہی چھین لیتا ہے اور پھر انسان ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں اور انسانی سوسائٹی میں اپنا موثر کردار ادا نہیں کرسکتے۔ ان دو نشانیوں پر ہی غور کرے تو انسان اللہ کی معرفت کو پا سکتا ہے۔ کان کی ساخت۔ کان کی ظاہری ساخت بھی اللہ تعالیٰ نے عجیب و غریب بنائی ہے یہ ٹیڑھی وضع قطع ، اندر گڑھے اور ابھار پھر ان میں سوراخ انسانی ضرورت کے عین مطابق ہیں۔ آواز بردار ہوا کان کے ابھاروں سے ٹکرا کر نالیوں میں سے ہوتی ہوئی کان کے سوراخ میں چلی جاتی ہے۔ سوراخ اس ہوا کو آگے نہایت ہی نازک چمڑے کے پردے تک لیے جاتا ہے جو آگے سے بند ہے۔ پردے کے آگے حوض ہے جس میں رطوبت بھری ہوئی ہے جب ہوا پردے سے ٹکراتی ہے تو کان کے حوض میں بالکل اسی طرح لہریں پیدا ہوتی ہیں جس طرح کسی جوہڑ میں پتھر مارنے سے۔ حوض کی دوسری جانت جہاں لہریں ختم ہوتی ہیں وہاں ہر ایک کان میں تین تین ہزار اعصاب ہیں جو ٹیلیفون کا کام دیتے ہیں۔ ہر قسم کی آواز سننے کے لیے ایک ہی ٹیلیفون نہیں بلکہ ہر قسم کی آوازوں کی سماعت کے یے علیحدہ علیحدہ ٹیلیفون ہیں مثلا گانا سننے کے لیے اور ٹیلیفون ہے اور رونے کی آواز کے لیے دوسرا نرم آواز ایک ٹیلیفون سنتا ہے تو کر کت آواز کو دوسرا۔ بہرحال یہ ٹیلیفون آواز کو سن کر اس کی اطلاع مرکز سماعت کو دیتے ہیں۔ اور پھر قوت عقلیہ اور دماغیہ فیصلہ کرتی ہے کہ یہ کس چیز کی اور کس قسم کی آواز ہے۔ بہرحال اللہ نے سماعت کے یے کانوں میں حیرت انگیز نظام قائم کر رکھا ہے۔ آنکھوں کی ساخت آنکھوں کی ساخت کان سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے اس پر بقراط کے زمانے سے تحقیق ہو رہی ہے جو کہ مسلسل جاری ہے ، آنکھ میں اللہ نے سات طبقے اور تین قسم کی رطوبتیں رکھی ہیں۔ آنکھ کے درمیان میں جو سوراخ نظر آتا ہے اس میں نہایت ہی شفاف قسم کی رطوبت ہوتی ہے۔ جب یہ رطوبت گدلی ہوجاتی ہے تو موتیا بند بن جاتا ہے آدمی اندھا ہوجاتا ہے اور پھر آپریشن کے ذریعے اس کثافت کو دور کر کے آنکھ کو دیکھنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ بقراط کے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آنکھ کے سامنے والے حصے میں نہایت ہی باریک اور شفاف چالیس پردے رکھے ہیں جو کہ دیکھنے میں ایک ہی معلوم ہوتا ہے۔ اس شیشے کے گرد ایک غلاف بنا رکھا ہے جس کے ذریعے کسی حادثے یا دیگر ضرورت کے وقت آنکھ کو بند کرلیا جاتا ہے۔ یہ قدرت خداوندی کی کمال صناعی کا نمونہ ہے کہ اس نے چہرے پر ہڈیوں میں گڑھے بنا کر آنکھوں کو ان کے اندار محفوط کردیا ہے تا کہ حادثہ کی صورت میں ہڈی اس آنکھ کا دفاع کرسکے جب کوئی چیز آنکھ کے سامنے آتی ہے تو اس کا عکس رطوبت کی وساطت سے آنکھ کے پچھلے حصے میں چلا جاتا ہے۔ جہاں رطوبت ختم ہوئی ہے ، وہاں پر اعصاب کا جال بچھا ہوا ہے۔ جب باہر سے آنے والا عکس ان جالیوں پر پڑتا ہے تو یہ اسے مجمع نور تک پہنچاتی ہیں۔ مجمع نور اس عکس کو حس مشترک تک وہ اسے مرکزی قوت بصارت پہچا دیتی ہے۔ اس قوت کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے چناچہ آخر میں مرکزی قوت فیصلہ کرتی ہے کہ آنکھ نے جو کچھ دیکھا ہے وہ فلاں رنگ یا فلاں قسم کی شکل ہے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے آنکھ میں بھی عجیب و غریب اور نہایت ہی نرم ونازک نظام پیدا کر کے بینائی جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی ہے۔ کان اور آنکھ بلحاظ فضیلت انسانی کان اور آنکھ میں سے کون سا عضو افضل ہے ، اس کے متعلق مختلف حکماء کی مختلف آراء ہیں جو محققین کان کے حق میں ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کی بینائی زائل ہوجائے تو عقل کا م کرتی رہتی ہے جب کہ سماعت کے ضیاع سے عقل بھی کام نہیں کرتی ، لہٰذا کان افضل ہیں۔ اس آیت کریمہ میں کان کا ذکر پہلے ہوا ہے اور آنکھ کا بعد میں ، اور یہ چیز بھی کان کی افضلیت کی دلیل ہے کان کے حق میں ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ اللہ کے انبیاء میں سے بعض نابینا تو ہیں جیسے حضرت یعقوب (علیہ السلام) مگر کسی نبی کی قوت سماعت کا ابطال ثابت نہیں چونکہ سماعت سے محرومی تبلیغ دین کے حق میں رکاوٹ بن سکتی ہے اس لیے اللہ نے اپنے کسی نبی کو اس سے محروم نہیں کیا ، لہٰذا یہ بھی کان کی فضیلت کے حق میں جاتا ہے غرضیکہ بعض لوگ ان دلائل کی بنا پر کان کو آنکھ کی نسبت افضل مانتے ہیں۔ بعض مفکر آنکھ کو افضل تسلیم کرتے ہیں کیونکہ ” لبس ورآء العیان بیان “ جو چیز مشاہدے میں آجاتی ہے وہ آخری ہوجاتی ہے انسان جب کسی چیز کو اپنی آنکھون سے دیکھ لیتا ہے تو پھر اس کے وجود پر مزید کسی دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ فارسی کا مقولہ بھی یہی ہے ” عیاں راچہ بیان “ جو چیز نظر آجائے اس پر مزید دلیل قائم کرنے کے ضرورت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے ہزاروں نشانات بکھیر دیے ہیں جنہیں آنکھ کے ذریعے دیکھ کر انسان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ آنکھ آسمان کی طرف دور تک کی چیزوں کو دکھ سکتی ہے جب کہ کان کی شنوائی زیادہ دور تک نہیں ہوتی۔ یہ بھی آنکھ کی افضلیت پر دلیل ہے۔ انبیاء (علیہ السلام) نے اللہ کا کلام اس دنیا میں سنا مگر ان کو رویت نصیب نہیں ہوئی کیونکہ یہ زیادہ افضل چیز ہے اور دوسرے جہاں میں ہی ہوگی اور وہ اس کے نیک بندوں کو باطل پرست وہاں بھی روئیت الٰہی سے محروم ہی رہیں گے۔ صرف خاتم الانبیاء حضور نبی کریم ﷺ کو اس زندگی میں روئیت الٰہی نصیب ہوئی ہے مگر وہ بھی اس دنیا میں نہیں بلکہ معراج کے موقع پر عالم بالا میں جا کر یہ چیز بھی آنکھ کی فضیلت کے حق میں جاتی ہے۔ ایک اور بات بھی ہے کہ اگر کسی شخص کے کان ضائع ہوجائیں تو وہ بظاہر اتنا عیب دار معلوم نہیں ہوتا جتنا وہ شخص ہوتا ہے جس کی آنکھیں ضائع ہوجائیں۔ پھر اسے چلنے پھرنے اور کام کاج میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک (1۔ ترمذی ، ص 346) ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” من سلبت کریمتیہ فصبر فلن ارضی لذ دون الجنۃ “ جس شخص کی میں نے دو بزرگی والی آنکھیں سلب کرلیں اور پھر اس نے صبر کیا ، تو پھر میں اسے جنت میں پہنچائے بغیر کسی چیز پر راضی نہیں ہوگا۔ بہرحال انسانی اعضاء کان اور آنکھ کے متعلق یہ بحث امام رازی (رح) نے اپنی تفسیر میں کی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ دونوں نعمتیں اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہیں اور اس کی قدرت کا عظیم شاہکار ، ان کے بغیر خود انسان ان خصائل سے محروم ہوتا ہے جو اللہ نے ان کے ذریعے اس میں پیدا فرمائے ہیں۔ زندہ اور مردہ کا خالق بات کی ابتداء اس طرح ہوئی تھی کہ اے پیغمبر ! آپ ذرا ان کفار ومشرکین سے پوچھیں کہ آسمان و زمین سے روزی کون مہیا کرتا ہے اور کان اور آنکھوں کا مالک کون ہے ؟ اسی سلسلہ سوال کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا (آیت) ” ومن یخرج الحیی من المیت “ اور زندہ کو مردہ سے کون نکالتا ہے (آیت) ” ویخرج المیت من الحی “ اور مردہ کو زندہ سے کون پیدا کرتا ہے ؟ ان دونوں چیزوں کے مشاہدات ہم روز مرہ زندگی میں کرتے ہیں۔ ایک حقیر ار بےجان قطرہ آب سے اللہ تعالیٰ اپنی افضل ترین مخلوق انسان کو پیدا کرتا ہے انڈا ایک بےجان چیز ہے مگر اس سے جیتا جاگتا زندہ چوزا نکل آتا ہے۔ اب مرغی ایک جاندار پرندہ ہے اور اس سے پیدا ہونے والا انڈہ مردہ ہوتا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ ذرا یہ تو بتائی کہ مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کون پیدا کرتا ہے ؟ عالم سے جاہل اور جاہل آدمی سے عالم کو کون پیدا کرتا ہے اسی طرح نیک آدمی سے بد اور برے آدمی سے نیک کو پیدا کرنا کس ذات کا کام ہے۔ پھر آگے فرمایا (آیت) ” ومن یدبرا لامر “ اور معاملے کی تدبیر کون کرتا ہے ؟ دوسرے مقام پر آتا ہے کہ آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں تک تمام امور کی تدبیر کون کرتا ہے ؟ ہر ہر کام کا عروج وزوال ترقی وتنزل ، امیری غریبی ، صحت اور مرض ، حوادثات اور انعامات ، یہ سب چیزیں کون مہیا کرتا ہے ؟ ان چیزوں کو اپنے اپنے وقت اور اللہ کی حکمت اور مصلحت کے مطابق کون لاتا ہے ؟ تکلیفیں کون بھیجتا ہے اور راحت کے سامان کون مہیا کرتا ہے ؟ زندگی کون عطا کرتا ہے اور موت کون طاری کرتا ہے ؟ غرضیکہ پوچھا گیا ہے کہ تمام معاملات کی تدبیر کون کرتا ہے۔ ان تمام سوالوں کا جواب اللہ نے فرمایا (آیت) ” فسیقولون اللہ “ یقینا مشرکین یہی جواب دیں گے کہ ان تمام امور کا انجام دینے والی خدا تعالیٰ ہی ہے۔ اس بات کو وہ بھی مانتے ہیں کہ کارسازی کرنے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں ۔ فرمایا اگر ان کا یہی جواب ہے۔ (آیت) ” فقل “ تو آپ ان سے کہہ دیں (آیت) ” افلا تتقون “ پھر تم ڈرتے کیوں نہیں ، جب تمام کام اللہ ہی کرتا ہے تو پھر تم اس کی عبادت اور صفات میں غیروں کو کیوں شریک کرتے ہو ؟ ان کو نذرانے کیوں پیش کرتے ہو ؟ ان کی دہائی کیوں دیتے ہو ؟ ان کی قبروں پر چڑھاوے کیوں چڑھاتے ہو ؟ اور ان سے مرادیں اور حاجتیں کیوں طلب کرتے ہو ؟ فرمایا حقیقت یہ ہے (آیت) ” فذالکم اللہ ربکم الحق “ تمہارا رب وہی وحدہ لا شریک ہے جو برحق ہے۔ فرمایا اگر یہ بات ہے (آیت) ” فماذا بعدالھق الا الضلل “ تو پھر حق کے ظاہر ہوجانے کے بعد گمراہی کے سوا کیا رہ جاتا ہے۔ کفر اور شرک تو سراسر گمراہی ہے۔ اگر اللہ کی وحدانیت کو پس پشت ڈال دو گے تو باقی صرف گمراہی رہ جائیگی۔ جب ربوبیت کا اقرار کرتے ہو تو پھر الوہیت کا انکار کیوں کرتے ہو ؟ پھر اسی وحدہ لا شریک کی عبادت پر اکتفا کیوں نہیں کرتے ؟ اغیار کے پیچھے کیوں بھاگتے ہو ؟ فرمایا جب حق واضح ہوگیا (آیت) ” فانی تصرفون “ پھر تم کدھر پھرے جا رہے ہو ؟ اور شیطان نے تمہیں کس راستے پر ڈال دیا ہے ؟ فسق ذریعہ محرومی اللہ تعالیٰ نے ایک اور بات بھی اشارۃ فرمادی ہے (آیت) ” کذلک حقت کلمت ربک علی الذین فسقوا “ اسی طرح تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے ان لوگوں پر جو فاسق ہیں۔ یاد رکھو یہ فسق اور نافرمانی ہی انسان کی محرومی کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ فلاں شخص نافرمانی پر ڈٹ جانے والا ہے ، لہٰذا اسے ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ ایساشخص ایمان سے محروم ہی رہتا ہے۔ یہاں پر فسق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ دوسری جگہ ظلم کا ذکر بھی آتا ہے یعنی ظالموں پر اللہ کی بات ثابت ہوچکی ہے اور وہ محروم رہیں گے اور انہیں ہدایت نصیب نہیں ہوگی۔ جب تک فسق اور ظلم کو ترک نہیں کریں گے نیکی سے محروم ہی رہیں گے۔ فرمایا یہ بات نافرمانوں پر ثابت ہوچکی ہے (آیت) ” انھم لا یومنون “ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ برائی پر اصرار ایسی خصلت ہے جو انسان کو ہر خیر سے محروم کردیتی ہے اور انسان ذلیل ہو کر رہ جاتا ہے۔
Top