Maarif-ul-Quran (En) - At-Tawba : 17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
ہم نے ان کو جانچا9 ہے جیسے جانچا تھا باغ والوں کو2 جب ان سب10 نے قسم کھائی کہ اس کا میوہ توڑیں گے صبح ہوتے
9:۔ ” انا بلوناھم “ یہ تخویف دنیوی کا نمونہ ہے۔ ضمیر منصوب اہل مکہ سے کنایہ ہے۔ ” اصحاب الجنۃ “ سے گذشتہ زمانے کے وہ بھائی مراد ہیں جنہوں نے ایک نہایت عمدہ باغ اپنے باپ سے وراثت میں پایا تھا۔ صنعاء الیمن کے قرب و جوار میں ایک شخص رہتا تھا جس کا ایک بہت اچھا باغ تھا جس میں ہر قسم کے میووں اور پھلوں کے درخت تھے یہ شخص بہت نیک تھا اور صرف خدا ہی کو برکات دہندہ سمجھتا تھا باغ کی پیداوار میں سے دل کھول کر خدا کی راہ میں خرچ کرتا اور مساکین کو کھلاتا تھا۔ مساکین صبح صبح ہی اس کے باغ میں پہنچ جاتے اور پھل توڑ کر ان کو کھلاتا اور ساتھ لے جانے کے لیے بھی دیتا اس کی وفات ہوئی تو اس کے بیٹوں نے سوچا کہ ہمارا باپ کوئی عقلمند نہیں تھا۔ وہ اپنی دولت فضول مسکینوں اور غریبوں میں بانٹ دیتا تھا اب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ راتوں رات ہی پھل توڑ کرلے آئیں کہ جب مساکین وہاں پہنچیں تو وہ پھل سمیٹ کر واپس آچکے ہوں۔ ایک کے سوا یہ تمام بھائی مشرک تھے اور اپنے خود ساختہ معبودوں کو برکات دہندہ سمجھتے تھے چناچہ انہوں نے قسمیں کھا کر یہ فیصلہ کیا اور جب وہ یہ فیصلہ کر رہے تھے اس وقت وہ استثناء نہیں کر رہے تھے یعنی شرک سے اللہ تعالیٰ کی تقدیس و تنزیہ نہیں کر رہے تھے اور برکات دینے میں اللہ کو وحدہ لا شریک نہیں سمجھ رہے تھے اور انہیں یہ خیال نہیں آرہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ قال ابو صالح، کان استثنائہم قولہم سبحان اللہ ربنا (قرطبی ج 18 ص 241) ۔ مگر ان میں سے ایک جو علم و فہم اور عقل و اعتقاد کے اعتبار سے سب پر فائق تھا اس نے ان کو اس حرکت سے منع کیا تھا اور انہیں سمجھا یا تھا کہ وہ خدا کی تسبیح و تقدیس کریں اور اللہ کے سوا کسی اور کو برکات دہندہ نہ سمجھیں مگر انہوں نے اس کی ایک نہ سنی آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کے باغ میں پہنچنے سے پہلے ہی اس کو آفت سماویہ سے تباہ و برباد کردیا۔ فرمایا ہم نے ان باغ والوں کو دنیوی نعمتوں سے مالا مال کر کے آزمایا۔ مگر انہوں نے ناشکری کی اور اللہ کے سوا اوروں کو برکات دہندہ سمجھنے لگے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو ان نعمتوں سے محروم کردیا گیا اسی طرح اہل مکہ کو ہم نے تمام دنیوی نعمتیں اور آسائشیں دیں اور سب سے بڑی نعمت ہم نے ان کو یہ عطا کی کہ سید الانبیاء ﷺ کو ان میں مبعوث فرمایا مگر انہوں نے ان تمام نعمتوں کی بےقدری اور ناشکری کی اور اپنے معبودان باطلہ کو برکات دہندہ سمجھا تو ہم نے ان پر سخت ترین قحط مسلط کردیا ہے۔ 10:۔ ” اذ اقسموا “ انہوں نے قسمیں کھا کر پختہ فیصلہ کرلیا کہ بالکل علی الصبح باغ میں پہنچ کر پھل توڑ لیں گے۔ مقصد یہ تھا کہ مساکین کے پہنچنے سے پہلے اپنا کام ختم کر کے واپس آجائیں۔ ولا یستثنون ای ولا یسحون بقرینۃ لولا تسبحون اور قالو اسبحان ربنا۔ یعنی وہ شرک سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ و تقدیس نہیں کر رہے تھے اور برکات دہندہ ہونے میں اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک نہیں مانتے تھے بلکہ اپنے خود ساختہ معبودوں کو بھی برکات دہندہ سمجھتے تھے۔
Top