Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 156
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ قَالُوْا لِاِخْوَانِهِمْ اِذَا ضَرَبُوْا فِی الْاَرْضِ اَوْ كَانُوْا غُزًّى لَّوْ كَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَ مَا قُتِلُوْا١ۚ لِیَجْعَلَ اللّٰهُ ذٰلِكَ حَسْرَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَكُوْنُوْا : نہ ہوجاؤ كَا : طرح لَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جو کافر ہوئے وَقَالُوْا : وہ کہتے ہیں لِاِخْوَانِھِمْ : اپنے بھائیوں کو اِذَا : جب ضَرَبُوْا فِي الْاَرْضِ : وہ سفر کریں زمین (راہ) میں اَوْ : یا كَانُوْا غُزًّى : جہاد میں ہوں لَّوْ كَانُوْا : اگر وہ ہوتے عِنْدَنَا : ہمارے پاس مَا : نہ مَاتُوْا : وہ مرتے وَمَا قُتِلُوْا : اور نہ مارے جاتے لِيَجْعَلَ : تاکہ بنادے اللّٰهُ : اللہ ذٰلِكَ : یہ۔ اس حَسْرَةً : حسرت فِيْ : میں قُلُوْبِھِمْ : ان کے دل وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحْيٖ : زندہ کرتا ہے وَيُمِيْتُ : اور مارتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : جو کچھ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
اے ایمان والو ! ان کافروں کی طرح نہ ہوجانا جو اپنے (مسلمان) بھائیوں کے لئے جب وہ سر زمین میں سفر پر نکلیں یا غازی بنیں تو کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے (یہ اس لئے کہتے ہیں) کہ اللہ ان کے دلوں میں اس بات کو حسرت بنادیں اور اللہ ہی زندہ کرتے ہیں اور (اللہ ہی) مارتے ہیں اور تم جو کرتے ہو اللہ دیکھ رہے ہیں
آیات 156- 171 اسرارو معارف یایھا الذین امنوا………………اوقتلتم لا لی اللہ تحشرون۔ اسی بات ک وآگے بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مومنین کو زیب نہیں دیتا کہ کفار کی سی حرکت کرے یا ان کی طرح سوچے اور بات کرے کیونکہ کافر کے اقوال وافعال بھی اس کے لئے اپنے اندر سزا کی کیفیت رکھتے ہیں جس طرح منافقین کا قول ہے کہ اگر ہمارے پاس ہمارے یہ بھائی رہتے اور اطاعت رسول ﷺ میں سفر اختیار نہ کرتے ، نہ جہاد میں حصہ لیتے تو ہرگز قتل نہ ہوتے اور نہ ان کی یوں موت آتی۔ یہ سوچ ، ایک کرب ہے ، ایک حسرت ہے جو دل کو جلارہی ہے ایک چبھن ہے جس سے دل بےقرار ہے اور یہ صرف کافر کا حصہ ہے ورنہ موت اور زندگی اللہ کے دست قدرت میں ہے۔ جسے چاہے موت دے دے اور جسے چاہے زندہ رکھے۔ وہ قادر ہے پھر حسرت کس بات کی ، اور پریشانی کیسی ؟ یہ دولت ایمان سے نصیب ہوتی ہے اور اللہ تمہارے تمام اعمال کو دیکھ رہا ہے یعنی جو شخص بھی جس راہ کو اپنالے گا اس کے نتائج اس پر وارد ہوں گے اور پھر موت تو ہر حال وارد ہو کر رہے گی۔ اس سے سفر نہیں ، اور ہر مرنے والا یا اللہ کی راہ میں موت سے ہمکنار ہوتا ہے اور یا شیطان کے رستہ پر موت سے دوچار ۔ پہلی راہ سعادت کی ہے کہ راہ خدا میں قتل ہو یا یاد خدا میں موت آئے تو یہ بڑی نعمت ہے کہ ا س پر اللہ کی مغفرت اور اس کی رحمت مرتب ہوگی جس کا ایک شمہ ، تمام دنیا کی دولت سے بہت زیادہ بھاری ہے اور یہ موت ایک تحفہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے تحفہ المومن الموت۔ یہ ایک انعام ہے اور عطا ہے۔ ورنہ تو ہر ایک کو مرنا ہے اگر ویسے مارے گئے یا مرگئے ، تو بھی اللہ کی بارگاہ میں جمع ہونا ہے۔ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ اب سوچو کہ جو شیطان کی راہ میں مرگئے یا مارے گئے وہاں ان کی حالت کیا ہوگی تب اندازہ ہوسکے گا کہ اللہ کی راہ میں نصیب ہونے والی موت اس حیات مستعار سے قیمتی اور پر لطف ہے۔ فبمارحمۃ من اللہ لنت لھم……………ان اللہ یحب المتوکلین۔ اللہ کی رحمت کس قدر عام ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ بھی اسی کی رحمت سے سب کے ساتھ بہت نرمی اور محبت کا سلوک فرماتے ہیں۔ آپ ﷺ کی شفقت اور رافت ان کی ڈھال ہے اور آپ کا عفو و درگزر ان کی جائے پناہ۔ آپ یہ عظمت شان اور آپ کا علم کے ساتھ جودوسخا سب رحمت باری ہی کے کرشمے ہیں۔ نیز اگر یہ اوصاف حمیدہ اور اخلاق جلیلہ آپ کے ہاں نہ ہوتے تو لوگ آپ ﷺ کے گردجمع نہ ہوپاتے اور اصلاح خلائق کا فریضہ حسب منشا انجام نہ پا سکتا۔ اور لوگ محروم رہتے ، اپنی اصلاح اور تزکیہ اخلاق کے لئے انہیں کوئی دروازہ نصیب نہ ہو پاتا۔ مگر اللہ کی رحمت نے یہ گوارا نہ کیا اور آپ ﷺ جیسے کریم اور رئوف ورحیم پیمبرکو مبعوث فرما کر عفوعام کا اذن فرمایا۔ اب بھی اگر کوئی محروم ہے یہ کمزوری یا نقص اس شخص کی اپنی ذات میں ہے جس کے بارے اسے دنیا میں محرومی کا اور آخرت میں وہاں کے مواخذہ کا سامنا کرنا ہوگا۔ آپ ﷺ مومنین کے ساتھ درگزر کا معاملہ ہی فرمائیے کہ نادانی میں یا بحیثیت ایک انسان کے ان سے جو لغزشیں سرزد ہوسکتی ہیں وہ آپ ﷺ کے قلب اطہر کو مکدر نہ کرسکیں۔ تکدر قلبی : تکدر قلبی منافی رافت ہے اور فیوضات کو منقطع کردیتا ہے یہی وجہ ہے کہ شیخ کے دل میں کدورت آجائے تو طالب کے فیوضات اور مقامات برباد ہوجاتے ہیں۔ آپ ﷺ ان کے لئے اللہ سے بخش مانگا کریں کہ آپ ﷺ کی دعا ان کے لئے باعث برکات اور موجب تسلی ہوگی۔ نیز ایسے امور میں جو وحی سے متعین نہیں فرمادیئے جاتے مومنین سے مشورہ فرمایا کریں کہ انہیں آپ کا لطف خاص حاصل رہے۔ سبحان اللہ ! کیا انداز ہے اپنے نبی ﷺ کی عظمت کے اظہار کا بھی اور خودذات باری صحابہ ؓ کی سفارشی بھی ہے اور ان کے طفیل قیامت تک پیدا ہونے والا وہ انسان جسے ان کا اتباع نصیب ہو ، اسی کرم کا امیدوار بھی ہے۔ صاحب معارف القرآن مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہاں مشورہ کی شرعی حیثیت اور طریق کار نیز شوریٰ اور اسلامی حکومت وغیرہ جملہ امور پر خوب داد تحقیق دی ہے ، اللہ ان کی قبر کو منور فرمائے۔ آمین۔ اگر دیکھنا چاہیں تو دوسری جلد کے صفحہ نمبر 215 سے صفحہ نمبر 224 ملاحظہ فرمائیں۔ مشورہ اور شوریٰ : لیکن مشورہ کی حیثیت بہرحال اپنی ہوگی کہ بعد مشورہ بھی آپ ﷺ جو فیصلہ فرمالیں خواہ مشورہ کے مطابق ہو یا آپ ﷺ اس کے خلاف پسند فرمالیں۔ تو پھر اللہ پر بھروسہ کریں کہ تمام امور اسی کے دست قدرت میں ہیں۔ مغربی جمہوریت تو کثرت رائے کو چاہتی ہے کہ دو اندھے اگر دن کو رات کہہ دیں تو ایک آنکھوں والا قبول کرنے پر مجبور ہے مگر اسلامی طرز زندگی میں امیر یا حاکم یا شیخ یعنی ہر طرح کا سربراہ وہی بن سکتا ہے جو ان لوگوں میں سب سے بہتر علمی وعملی اعتبار سے ورع وتقویٰ کے لحاظ سے ہو ، ایسے انسان کی رائے بفضل اللہ سب سے بہتر ہوگی۔ اسے چاہیے کہ سب سے مشورہ کرے۔ ممکن ہے اکثریت کی رائے ہی اس کے اطمینان کا سبب بن جائے یا خود اس کی رائے سے مطابقت رکھتی ہو لیکن اگر نہ بھی ہو تو وہ پابند نہیں بلکہ اپنی صوابدید کے مطابق ان سب لوگوں کی بہتری کی خاطر اللہ کو حاضر جانتے ہوئے خود فیصلہ کرلے اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس پر عمل کرے کہ اللہ توکل کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ صاحب کشف الاسرار فرماتے ہیں۔ کہ بوعلی وفاق کا ارشاد ہے کہ تو کل کے تین درجے ہیں ، اول توکل ، دوم تسلیم اور سوم تفویض ۔ پھر فرماتے ہیں ، صاحب توکل وعدہ حق پر امید رکھتا ہے۔ صاحب تسلیم علم باری پر مطمئن ہے اور صاحب تفویض راضی برضا ہے۔ صاحب توکل طالب عطا ہے۔ صاحب تسلیم منتظر لقا اور صاحب تفویض آسودہ رضا ہوتا ہے۔ ان ینصرکم اللہ……………واللہ بصیر بما یعملون۔ چونکہ آپ ﷺ کی رائے اطاعت باری کے لئے ہی تو ہوگی یا جو شخص آپ ﷺ کے بعد بھی شرعی قاعدہ کے مطابق امیر ہوگا اس کی اطاعت نصرت الٰہی کا سبب بنے گی اور جب اللہ مدد فرمائے گا تو اے مسلمانو ! تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ یہی حال شیخ کا ہوتا ہے کہ اس کی محنت و کاوش یا رائے اور مشورہ مفادات ذاتی سے بالاتر ہوتا ہے اسی لئے اسے اللہ کی طرف سے نصرت حاصل ہوتی ہے اور مسلمانوں کی ترقی کا بنیادی سبب یہی چیز ہے لیکن خدانخواستہ کوئی ایسی صورت بن جائے کہ نااہل کسی منصب پر قابض ہوجائیں اور مفادات ذاتی کی خاطر فیصلے کریں تو پھر نہ صرف خود ذلیل ہوں گے بلکہ امت کی رسوائی کا سبب بنیں گے کیونکہ جب للہیت اٹھ گئی تو نہ صرف نصرت الٰہی ہاتھ سے گئی بلکہ خذلان اور ذلت حصے میں آئی اور جن لوگوں کو اللہ رسوا کردے کوئی ان کی مدد نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر شیخ کی مسند پر قابض ہوں گے تو لوگوں کا دین برباد کرنے کا باعث بنیں گے اور محبت کی جگہ دلوں میں نفرت اور منافقت آجائے گی۔ اعاذنا اللہ منہا۔ نیز مومن تو اللہ پر ہی بھروسہ رکھتا ہے ، ظاہر ہے کہ توکل بھی تو جائز امور میں ہی کرے گا۔ یعنی ایمان کے ساتھ نیکی اور خلوص ہی زیب دیتا ہے۔ نیز خیانت کی امید نبی سے رکھنا فضول ہے کہ یہ ایسا مذموم فعل ہے کہ ہر خائن اپنی خیانت کردہ چیزسمیت میدان حشر میں حاضر ہوگا ۔ جس طرح آیات و احکام نازل ہوتے ہیں اللہ کا رسول ﷺ اسی طرح پہنچائیں گے۔ منافقین یا کفار یہ امید نہ رکھیں کہ ان کے عقائد کی جو خرابی آیات میں بیان کی جاتی ہے وہ آپ ﷺ ارشاد نہ فرمایا کریں یا کوئی بھی شخص اجرائے احکام میں یا تقسیم غنائم میں آپ ﷺ سے کسی ناروا رورعایت کی ہرگز امید نہ رکھے کہ یہ فعل نبی کو تو زیب ہی نہیں دیتا۔ غیر نبی بھی جو اس کا مرتکب ہوگا یہ اس کے لئے باعث رسوائی بنے گی۔ یہاں کفار کے اس شبہ کا رد بھی ہے کہ معاذ اللہ آپ ﷺ نے فلاں کو زیادہ مال عطا فرمایا اور فلاں کو کم۔ اور اس کے ساتھ یہ اصول بھی ارشاد ہوا کہ غلول نہایت رسواکن فعل ہے اور یہ ہر طرح کی خیانت کو محیط ہے جیسے خانقا ہوں ، مساجد اور مدارس وغیرہ کے اموال یا خزانہ سرکار یعنی بیت المال کی اشیاء رقوم خواہ ان میں چوری کرے۔ لاپرواہی سے ضائع کرے تو اس بارہ حدیث شریف میں وعید آئی ہے آپ ﷺ کی شفاعت سے لوگ محروم رہیں گے۔ اور دوسرے درجہ میں ہر گناہ کو خیانت کرکے غضب الٰہی کو دعوت دینے والے تو کبھی بھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے کہ مظہر عضب تو جہنم ہے اور وہی ایسے لوگوں کا ٹھکانہ ہوگا جو بہت ہی تکلیف دہ جگہ ہے اور یاد رہے کہ عنداللہ لوگوں کے مدارج مختلف ہیں۔ نہ سب جنتی ایک درجے کے ہیں اور نہ سب دوزخی ایک جیسے جنت میں درجات بلندی کی طرف ہیں کہ دنیا میں جس قدر اطاعت خلوص کے ساتھ کرکے درجات پالئے یا پھر عدم اطاعت کے وبال میں گرفتار جتنا کوئی نیچے گرتا چلا گیا اور اللہ کریم سب کے اعمال دیکھتے ہیں اور جہنم کے درجات نیچے کو چلتے ہیں۔ لقد من اللہ……………لفی ضلل مبین۔ مومنین پر تو اللہ کا خاص احسان ہے کہ انہی میں سے ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں اور دنیا کی ساری رونقیں آپ ﷺ ہی کے طفیل ہیں جن سے ہر نوع تخلیق متمتع ہورہی ہے۔ مگر مسلمانوں پر تو یہ احسان عظیم ہے کہ یہ لوگ آپ ﷺ کی برکات سے ابدی طور پر مالا مال ہو رہے ہیں اور باقی لوگ صرف دنیا میں وہ بھی مادی چیزوں سے۔ انسان کی اصل روح ہے اور بدن اس کا آلہ۔ اس لئے حقیقی نعمتیں بھی لذت روحانی اور نعمائے روحانی ہیں جن سے مومنین مستفید ہو رہے ہیں۔ پھر آپ ﷺ اگر کسی اور جنس سے ہوتے یعنی فرشتے یا جن ، تو انسان پوری طرح استفادہ نہ کرسکتا۔ یہ بہت بڑا احسان ہے کہ آپ کی بعثت سے بشریت کو وہ شرف نصیب ہوا کہ ساری مخلوق سے اس کی شان زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ آپ ﷺ کی بشریت کا انکار کفر ہے صاحب روح المعانی اسی آیہ کریمہ کے تحت لکھتے ہیں کہ شیخ ولی الدین عراقی (رح) سے پوچھا گیا کہ آپ ﷺ کو بشر اور عرب جاننا کیا صحت ایمانی کی شرط ہے۔ فرمایا ، ” بیشک ! “ پھر فرمایا ” اگر کوئی آپ ﷺ کی رسالت کا اقرار تو کرے مگر یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ آپ بشر ہیں یا فرشتے یا جن اور پھر عرب یا عجم کے رہنے والے تو اس کے کفر میں کوئی شک نہیں “۔ یہ آپ ﷺ کی ہی برکات ہیں کہ اللہ کی آیات تلاوت فرماتے ہیں یعنی ، کردیا ہم سخن بندوں کو اللہ سے تو نے اس مشت خاک کو وہ عزم اور وہ طلب بخشی کہ اب ذات باری سے ہمکلام ہے اور اپنے تمام امور میں اللہ سے رہنمائی حاصل کرتا ہے اسی کی خاطر مومنین کا تزکیہ فرماتے ہیں۔ تزکیہ : تزکیہ کیا ہے ؟ ایک قلبی اور روحانی کیفیت کا نام ہے جس کے طفیل دل میں خلوص اور اطاعت الٰہی کی محبت پیدا ہوجاتی ہے اور گناہ اور معصیت سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اس کا ثبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس زندگیاں ہیں کہ آپ ﷺ کی بعثت کے وقت دنیا کی اخلاقی حالت عموماً اور اہل عرب کی خصوصاً تباہی کے آخری کنارہ پر پہنچ چکی تھی کہ آپ ﷺ کی بعثت نے انسانیت کو حیات نوبخشی اور ان ہی لوگوں کو وہ اخلاقی عظمت اور خلوص وللہیت عطا فرمائی کہ تاریخ انسانی اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی۔ آپ ﷺ کی تعلیمات ، ارشادات اور اس کے ساتھ فیض صحبت تزکیہ کی اصل ہے صرف تعلیمات تو کافر بھی سنتا اور جانتا ہے مگر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے فیض صحبت سے محروم ہو کر تزکیہ سے محروم رہتا ہے اور مومن ایمان لاکر ان کیفیات کو حاصل کرتا ہے جو آپ ﷺ کی صحبت میں بٹتی ہیں چناچہ ایک نگاہ پانے والا صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوا اور یہ نعمت عظمیٰ بٹتی رہی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت میں آنے والے تابعین کہلائے اور ان سے تبع تابعین مستفید ہوئے پھر اہل اللہ نے اس نعمت کو ان کے مقدس سینوں سے حاصل کیا اور خلق خدا کے دلوں کو روشن کرتے رہے اور کرتے رہیں گے انشاء اللہ۔ کہ اسی کی برکت سے کتاب و حکمت یا کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے یہ تزکیہ یا فیض صحبت ہی حصول تعلیم کی اساس ہے۔ کتاب و حکمت کی وہ تعلیم جو انسان کے لئے راہ عمل کو آسان کردے جو اس کی عملی زندگی بن جائے ورنہ پھر محض حروف کی شناخت رہ جائے گی اسے تعلیم کہنا درست نہ ہوگا۔ یہ بھی وضاحت فرمادی کہ کتاب کے ساتھ مفہوم کتاب یا حکمت بھی ہے یعنی حدیث مبارک اور کتاب اللہ کی وہ شرح جو آپ ﷺ نے فرمائی۔ ورنہ قبل ازیں تو لوگ ایسی گمراہی میں مبتلا تھے جسے وہ خود بھی جانتے تھے یعنی اپنے گمراہ ہونے کا خود انہیں بھی علم تھا۔ اور غالباً آ ج کے دور کی مصیبت بھی یہی ہے کہ کیفیات باطنی دنیا میں بہت کم نصیب ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ جن کے نہ صرف دل روشن ہوں بلکہ دوسرے دلوں کو روشن کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہوں دنیا میں نظر نہیں آتے اور جب یہ نعمت نصیب نہیں ہوتی تو قوت عمل نصیب نہیں ہوتی۔ لوگ کتاب اللہ پڑھتے بھی ہیں پڑھاتے بھی ہیں مگر عمل بہت ہی کم نصیب ہوتا ہے اللہ کریم دلوں کی روشنی نصیب فرمائے۔ آمین۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کیا جائے جو ایک روشن دل رکھتے ہوں اور آپ ﷺ کی عطا کردہ کیفیات کے نہ صرف امین ہوں بلکہ انہیں تقسیم بھی کرسکیں اور دوسروں کے دلوں میں بھی وہ روشنی منتقل کریں جس کے وہ امین ہوں۔ چنیں مردے کہ یابی خاک اوشو اسیر حلقہ فتراک او شو ایسے ہی مردوں کی غلامی حیات آفریں ہوا کرتی ہے اور حقیقی علم سے آشنائی نصیب کرتی ہے یہی ترتیب قرآنی سے بھی مترشح ہوتا ہے کہ تلاوت آیات ، پھر تزکیہ اور اس کے بعد تعلیم کتاب و حکمت۔ یہ سب کچھ حاصل ہوجانے کے بعد بھی انسان تکالیف ومصائب میں گھر سکتا ہے کہ کبھی تو بحیثیت انسان اس سے کوئی لغزش ہو ہی جاتی ہے۔ تو یہ مصیبت تلافی مافات کا کام دیتی ہے اور کبھی ترقی درجات کا سبب بن جاتی ہے۔ نیز مومن ومنافق کی پہچان بھی ہوجاتی ہے۔ اولما اصابتکم مصیبۃ…………ان کنتم صادقین۔ کہ یوم احد جو نقصان تمہیں پہنچایا جتنا نقصان لشکر اسلامی کا ہو اس سے دو چند تو یوم بدر کا کفار کا ہوچکا ہے یعنی اے مسلمانو ! تم انہیں اس سے دو چند صدمہ پہنچا چکے ہو پھر اس بات پہ پریشانی کیسی ؟ دوسری اور اصل بات یہ ہے کہ آپ حضرات نے غیرارادی طور پر سہی ، درہ خالی کرکے نبی رحمت ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں کوتاہی کی ہے اس کا نتیجہ بھی ضرور سامنے آنا تھا۔ اور تیسری وجہ یہ بھی کہ اس مصیبت میں ڈال کر اللہ بعض مومنین کو تو شہادت سے سرفراز کرنا چاہتا تھا اور باقیوں کو بھی دنیا کی نگاہ میں سرفراز کرنا مقصود تھا۔ نیز منافقین کی شناخت کا باعث بھی یہی بات بنی کہ جب انہیں جنگ یا دشمن کی مدافعت کے لئے کہا گیا تو کہتے ہیں کہ اگر یہ جنگ ہوتی تو ہم ضرور ساتھ دیتے مگر یہ تو صریحا ً خود کشی ہے۔ ارشادات رسول ﷺ کے ساتھ یہ سلوک انہیں ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب لے گیا۔ حالانکہ یہ صرف زبانی بات تھی۔ ان کے دل میں تو اس سے کہیں زیادہ کدورت بھری ہوئی تھی اور اللہ تو ان کی پوشیدہ باتوں کو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ یہ بدبخت خود تو جنگ سے علیحدہ ہو ہی گئے تھے دوسروں کو بھی کہتے تھے کہ اے کاش ! ہمارا کہا مان لیتے تو یوں تہ تیع نہ کئے جاتے۔ تو ان سے کہیے کہ تم اپنے آپ سے تو موت کو منع کرکے دیکھو۔ جب تم اپنی ذات سے موت کو نہیں روک سکتے تو دوسروں سے موت کو منع کرنے کی طاقت کیسے رکھتے ہو ؟ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ عین اس روز بھی متعدد منافقین موت کا شکار ہوئے تھے۔ ولا تحسبن الذین قتلوا……………وان اللہ لا یضیع اجرالمومنین۔ شہید کی حیات : جنہیں تم مقتول سمجھتے ہو وہ شہید ہیں اور شہید کو کبھی مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ یہ ارشاد ان لوگوں کے بارے ہے جو لوگوں کے سامنے قتل ہوئے اور جنہیں قبروں میں دفن بھی کیا گیا۔ اس کے باوجود حکم یہ ہے کہ انہیں مردہ نہ سمجھا جائے بلکہ یہ زندہ ہیں۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ حیات روحانی مراد ہے تو وہ ہر مرنے والے کو حاصل ہے مومن ہو یا کافر ، روح دونوں کی زندہ رہتی ہے اور سوال و جواب قبر کے بعد نیک لوگوں کے لئے راحت اور کفار وفجار کے لئے عذاب ، قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حیات سے مراد وہ حیات ہے جو آخرت میں نصیب ہوگی تو صاحب تفسیر کبیر فرماتے ہیں کہ یہ قول معتزلہ کا ہے اور باطل ہے پھر اس کی وجوہات بیان فرماتے ہیں تو پھر یقینا ایسی زندگی ہے جس میں روح کا تعلق بدن سے بھی بہت مضبوط طور پر قائم ہے۔ اس قدر تعلق تو ہر روح کو بدن سے ہوتا ہے کہ جو ثواب یا عذاب روح کو پہنچے بدن کے ذرات بھی اس سے متاثر ہوں اور اپنے حصے کی راحت یارنج جھیلتے ہیں۔ مگر شہید کی روح کا تعلق اس سے بہت قوی ہوتا ہے کہ ارشاد ہوتا ہے انہیں رزق ملتا ہے کھاتے پیتے ہیں۔ یہاں کوئی کہے کہ شہید کی قبر میں مادی رزق تو نظر نہیں آتا ، تو آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ابیت عند ربی یطعمنی ویقینی۔ موجود ہے کہ کئی کئی روز حضور ﷺ کچھ کھاتے پیتے نہ تھے۔ اللہ کی طرف سے کھلائے پلائے جاتے تھے اور وہ رزق نہ مادی ہوتا تھا نہ کسی کو نظر آتا تھا۔ اس کے باوجود وجود اقدس کو بھی غذا کی کمی محسوس نہ ہوتی تھی نہ کوئی ایسا اثر مرتب ہوتا تھا ، ایسا ہی رزق شہید بھی پاتا ہے پھر لذت والم کا احساس وادارک رکھتا ہے جس کے لئے بھی حیات شرط ہے اور نہ صرف اپنی ذات سے بلکہ اپنے پسماندگان کے حالات سے بھی خوشی اور سرور حاصل کرتا ہے کہ وہ بھی اطاعت الٰہی کے راستے پر گامزن ہیں اور یہ تو انہوں نے دیکھ ہی لیا کہ اللہ مومنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ اس بات پہ خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے پسماندگان بھی آکر انعامات پائیں گے۔ تو اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ شہید زندہ ہوتا ہے اور روح کا تعلق بدن سے اس قدر قوی ہوتا ہے بدن نہ گلتا سڑتا ہے اور نہ خراب ہوتا ہے ، رزق دیا جاتا ہے ، خوشی اور الم کو محسوس کرتا ہے اس کا علم پہلے سے بھی وسیع ہوجاتا ہے کہ دنیا میں رہ جانے والوں کے حالات حاصل ہوتی ہے کہ عالم برزخ میں رہتا ہے۔ کھانا پینا ، سونا جاگنا راحت والم اور جملہ امور کا تعلق عالم برزخ سے ہے اگر شہید زندہ ہے تو یہ نبی کی برکات میں سے حصہ پاکر شہادت سے سرفراز ہو تو خود نبی کی حیات اس سے بھی اقویٰ ہوگی جس کی مثل غیر نبی کو نہیں ہوسکتی۔
Top