Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 156
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ قَالُوْا لِاِخْوَانِهِمْ اِذَا ضَرَبُوْا فِی الْاَرْضِ اَوْ كَانُوْا غُزًّى لَّوْ كَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَ مَا قُتِلُوْا١ۚ لِیَجْعَلَ اللّٰهُ ذٰلِكَ حَسْرَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: ایمان والو
لَا تَكُوْنُوْا
: نہ ہوجاؤ
كَا
: طرح
لَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جو کافر ہوئے
وَقَالُوْا
: وہ کہتے ہیں
لِاِخْوَانِھِمْ
: اپنے بھائیوں کو
اِذَا
: جب
ضَرَبُوْا فِي الْاَرْضِ
: وہ سفر کریں زمین (راہ) میں
اَوْ
: یا
كَانُوْا غُزًّى
: جہاد میں ہوں
لَّوْ كَانُوْا
: اگر وہ ہوتے
عِنْدَنَا
: ہمارے پاس
مَا
: نہ
مَاتُوْا
: وہ مرتے
وَمَا قُتِلُوْا
: اور نہ مارے جاتے
لِيَجْعَلَ
: تاکہ بنادے
اللّٰهُ
: اللہ
ذٰلِكَ
: یہ۔ اس
حَسْرَةً
: حسرت
فِيْ
: میں
قُلُوْبِھِمْ
: ان کے دل
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يُحْيٖ
: زندہ کرتا ہے
وَيُمِيْتُ
: اور مارتا ہے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
بِمَا
: جو کچھ
تَعْمَلُوْنَ
: تم کرتے ہو
بَصِيْرٌ
: دیکھنے والا
اے ایمان والو ! ان کافروں کی طرح نہ ہوجانا جو اپنے (مسلمان) بھائیوں کے لئے جب وہ سر زمین میں سفر پر نکلیں یا غازی بنیں تو کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے (یہ اس لئے کہتے ہیں) کہ اللہ ان کے دلوں میں اس بات کو حسرت بنادیں اور اللہ ہی زندہ کرتے ہیں اور (اللہ ہی) مارتے ہیں اور تم جو کرتے ہو اللہ دیکھ رہے ہیں
آیات 156- 171 اسرارو معارف یایھا الذین امنوا………………اوقتلتم لا لی اللہ تحشرون۔ اسی بات ک وآگے بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مومنین کو زیب نہیں دیتا کہ کفار کی سی حرکت کرے یا ان کی طرح سوچے اور بات کرے کیونکہ کافر کے اقوال وافعال بھی اس کے لئے اپنے اندر سزا کی کیفیت رکھتے ہیں جس طرح منافقین کا قول ہے کہ اگر ہمارے پاس ہمارے یہ بھائی رہتے اور اطاعت رسول ﷺ میں سفر اختیار نہ کرتے ، نہ جہاد میں حصہ لیتے تو ہرگز قتل نہ ہوتے اور نہ ان کی یوں موت آتی۔ یہ سوچ ، ایک کرب ہے ، ایک حسرت ہے جو دل کو جلارہی ہے ایک چبھن ہے جس سے دل بےقرار ہے اور یہ صرف کافر کا حصہ ہے ورنہ موت اور زندگی اللہ کے دست قدرت میں ہے۔ جسے چاہے موت دے دے اور جسے چاہے زندہ رکھے۔ وہ قادر ہے پھر حسرت کس بات کی ، اور پریشانی کیسی ؟ یہ دولت ایمان سے نصیب ہوتی ہے اور اللہ تمہارے تمام اعمال کو دیکھ رہا ہے یعنی جو شخص بھی جس راہ کو اپنالے گا اس کے نتائج اس پر وارد ہوں گے اور پھر موت تو ہر حال وارد ہو کر رہے گی۔ اس سے سفر نہیں ، اور ہر مرنے والا یا اللہ کی راہ میں موت سے ہمکنار ہوتا ہے اور یا شیطان کے رستہ پر موت سے دوچار ۔ پہلی راہ سعادت کی ہے کہ راہ خدا میں قتل ہو یا یاد خدا میں موت آئے تو یہ بڑی نعمت ہے کہ ا س پر اللہ کی مغفرت اور اس کی رحمت مرتب ہوگی جس کا ایک شمہ ، تمام دنیا کی دولت سے بہت زیادہ بھاری ہے اور یہ موت ایک تحفہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے تحفہ المومن الموت۔ یہ ایک انعام ہے اور عطا ہے۔ ورنہ تو ہر ایک کو مرنا ہے اگر ویسے مارے گئے یا مرگئے ، تو بھی اللہ کی بارگاہ میں جمع ہونا ہے۔ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ اب سوچو کہ جو شیطان کی راہ میں مرگئے یا مارے گئے وہاں ان کی حالت کیا ہوگی تب اندازہ ہوسکے گا کہ اللہ کی راہ میں نصیب ہونے والی موت اس حیات مستعار سے قیمتی اور پر لطف ہے۔ فبمارحمۃ من اللہ لنت لھم……………ان اللہ یحب المتوکلین۔ اللہ کی رحمت کس قدر عام ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ بھی اسی کی رحمت سے سب کے ساتھ بہت نرمی اور محبت کا سلوک فرماتے ہیں۔ آپ ﷺ کی شفقت اور رافت ان کی ڈھال ہے اور آپ کا عفو و درگزر ان کی جائے پناہ۔ آپ یہ عظمت شان اور آپ کا علم کے ساتھ جودوسخا سب رحمت باری ہی کے کرشمے ہیں۔ نیز اگر یہ اوصاف حمیدہ اور اخلاق جلیلہ آپ کے ہاں نہ ہوتے تو لوگ آپ ﷺ کے گردجمع نہ ہوپاتے اور اصلاح خلائق کا فریضہ حسب منشا انجام نہ پا سکتا۔ اور لوگ محروم رہتے ، اپنی اصلاح اور تزکیہ اخلاق کے لئے انہیں کوئی دروازہ نصیب نہ ہو پاتا۔ مگر اللہ کی رحمت نے یہ گوارا نہ کیا اور آپ ﷺ جیسے کریم اور رئوف ورحیم پیمبرکو مبعوث فرما کر عفوعام کا اذن فرمایا۔ اب بھی اگر کوئی محروم ہے یہ کمزوری یا نقص اس شخص کی اپنی ذات میں ہے جس کے بارے اسے دنیا میں محرومی کا اور آخرت میں وہاں کے مواخذہ کا سامنا کرنا ہوگا۔ آپ ﷺ مومنین کے ساتھ درگزر کا معاملہ ہی فرمائیے کہ نادانی میں یا بحیثیت ایک انسان کے ان سے جو لغزشیں سرزد ہوسکتی ہیں وہ آپ ﷺ کے قلب اطہر کو مکدر نہ کرسکیں۔ تکدر قلبی : تکدر قلبی منافی رافت ہے اور فیوضات کو منقطع کردیتا ہے یہی وجہ ہے کہ شیخ کے دل میں کدورت آجائے تو طالب کے فیوضات اور مقامات برباد ہوجاتے ہیں۔ آپ ﷺ ان کے لئے اللہ سے بخش مانگا کریں کہ آپ ﷺ کی دعا ان کے لئے باعث برکات اور موجب تسلی ہوگی۔ نیز ایسے امور میں جو وحی سے متعین نہیں فرمادیئے جاتے مومنین سے مشورہ فرمایا کریں کہ انہیں آپ کا لطف خاص حاصل رہے۔ سبحان اللہ ! کیا انداز ہے اپنے نبی ﷺ کی عظمت کے اظہار کا بھی اور خودذات باری صحابہ ؓ کی سفارشی بھی ہے اور ان کے طفیل قیامت تک پیدا ہونے والا وہ انسان جسے ان کا اتباع نصیب ہو ، اسی کرم کا امیدوار بھی ہے۔ صاحب معارف القرآن مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہاں مشورہ کی شرعی حیثیت اور طریق کار نیز شوریٰ اور اسلامی حکومت وغیرہ جملہ امور پر خوب داد تحقیق دی ہے ، اللہ ان کی قبر کو منور فرمائے۔ آمین۔ اگر دیکھنا چاہیں تو دوسری جلد کے صفحہ نمبر 215 سے صفحہ نمبر 224 ملاحظہ فرمائیں۔ مشورہ اور شوریٰ : لیکن مشورہ کی حیثیت بہرحال اپنی ہوگی کہ بعد مشورہ بھی آپ ﷺ جو فیصلہ فرمالیں خواہ مشورہ کے مطابق ہو یا آپ ﷺ اس کے خلاف پسند فرمالیں۔ تو پھر اللہ پر بھروسہ کریں کہ تمام امور اسی کے دست قدرت میں ہیں۔ مغربی جمہوریت تو کثرت رائے کو چاہتی ہے کہ دو اندھے اگر دن کو رات کہہ دیں تو ایک آنکھوں والا قبول کرنے پر مجبور ہے مگر اسلامی طرز زندگی میں امیر یا حاکم یا شیخ یعنی ہر طرح کا سربراہ وہی بن سکتا ہے جو ان لوگوں میں سب سے بہتر علمی وعملی اعتبار سے ورع وتقویٰ کے لحاظ سے ہو ، ایسے انسان کی رائے بفضل اللہ سب سے بہتر ہوگی۔ اسے چاہیے کہ سب سے مشورہ کرے۔ ممکن ہے اکثریت کی رائے ہی اس کے اطمینان کا سبب بن جائے یا خود اس کی رائے سے مطابقت رکھتی ہو لیکن اگر نہ بھی ہو تو وہ پابند نہیں بلکہ اپنی صوابدید کے مطابق ان سب لوگوں کی بہتری کی خاطر اللہ کو حاضر جانتے ہوئے خود فیصلہ کرلے اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس پر عمل کرے کہ اللہ توکل کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ صاحب کشف الاسرار فرماتے ہیں۔ کہ بوعلی وفاق کا ارشاد ہے کہ تو کل کے تین درجے ہیں ، اول توکل ، دوم تسلیم اور سوم تفویض ۔ پھر فرماتے ہیں ، صاحب توکل وعدہ حق پر امید رکھتا ہے۔ صاحب تسلیم علم باری پر مطمئن ہے اور صاحب تفویض راضی برضا ہے۔ صاحب توکل طالب عطا ہے۔ صاحب تسلیم منتظر لقا اور صاحب تفویض آسودہ رضا ہوتا ہے۔ ان ینصرکم اللہ……………واللہ بصیر بما یعملون۔ چونکہ آپ ﷺ کی رائے اطاعت باری کے لئے ہی تو ہوگی یا جو شخص آپ ﷺ کے بعد بھی شرعی قاعدہ کے مطابق امیر ہوگا اس کی اطاعت نصرت الٰہی کا سبب بنے گی اور جب اللہ مدد فرمائے گا تو اے مسلمانو ! تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ یہی حال شیخ کا ہوتا ہے کہ اس کی محنت و کاوش یا رائے اور مشورہ مفادات ذاتی سے بالاتر ہوتا ہے اسی لئے اسے اللہ کی طرف سے نصرت حاصل ہوتی ہے اور مسلمانوں کی ترقی کا بنیادی سبب یہی چیز ہے لیکن خدانخواستہ کوئی ایسی صورت بن جائے کہ نااہل کسی منصب پر قابض ہوجائیں اور مفادات ذاتی کی خاطر فیصلے کریں تو پھر نہ صرف خود ذلیل ہوں گے بلکہ امت کی رسوائی کا سبب بنیں گے کیونکہ جب للہیت اٹھ گئی تو نہ صرف نصرت الٰہی ہاتھ سے گئی بلکہ خذلان اور ذلت حصے میں آئی اور جن لوگوں کو اللہ رسوا کردے کوئی ان کی مدد نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر شیخ کی مسند پر قابض ہوں گے تو لوگوں کا دین برباد کرنے کا باعث بنیں گے اور محبت کی جگہ دلوں میں نفرت اور منافقت آجائے گی۔ اعاذنا اللہ منہا۔ نیز مومن تو اللہ پر ہی بھروسہ رکھتا ہے ، ظاہر ہے کہ توکل بھی تو جائز امور میں ہی کرے گا۔ یعنی ایمان کے ساتھ نیکی اور خلوص ہی زیب دیتا ہے۔ نیز خیانت کی امید نبی سے رکھنا فضول ہے کہ یہ ایسا مذموم فعل ہے کہ ہر خائن اپنی خیانت کردہ چیزسمیت میدان حشر میں حاضر ہوگا ۔ جس طرح آیات و احکام نازل ہوتے ہیں اللہ کا رسول ﷺ اسی طرح پہنچائیں گے۔ منافقین یا کفار یہ امید نہ رکھیں کہ ان کے عقائد کی جو خرابی آیات میں بیان کی جاتی ہے وہ آپ ﷺ ارشاد نہ فرمایا کریں یا کوئی بھی شخص اجرائے احکام میں یا تقسیم غنائم میں آپ ﷺ سے کسی ناروا رورعایت کی ہرگز امید نہ رکھے کہ یہ فعل نبی کو تو زیب ہی نہیں دیتا۔ غیر نبی بھی جو اس کا مرتکب ہوگا یہ اس کے لئے باعث رسوائی بنے گی۔ یہاں کفار کے اس شبہ کا رد بھی ہے کہ معاذ اللہ آپ ﷺ نے فلاں کو زیادہ مال عطا فرمایا اور فلاں کو کم۔ اور اس کے ساتھ یہ اصول بھی ارشاد ہوا کہ غلول نہایت رسواکن فعل ہے اور یہ ہر طرح کی خیانت کو محیط ہے جیسے خانقا ہوں ، مساجد اور مدارس وغیرہ کے اموال یا خزانہ سرکار یعنی بیت المال کی اشیاء رقوم خواہ ان میں چوری کرے۔ لاپرواہی سے ضائع کرے تو اس بارہ حدیث شریف میں وعید آئی ہے آپ ﷺ کی شفاعت سے لوگ محروم رہیں گے۔ اور دوسرے درجہ میں ہر گناہ کو خیانت کرکے غضب الٰہی کو دعوت دینے والے تو کبھی بھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے کہ مظہر عضب تو جہنم ہے اور وہی ایسے لوگوں کا ٹھکانہ ہوگا جو بہت ہی تکلیف دہ جگہ ہے اور یاد رہے کہ عنداللہ لوگوں کے مدارج مختلف ہیں۔ نہ سب جنتی ایک درجے کے ہیں اور نہ سب دوزخی ایک جیسے جنت میں درجات بلندی کی طرف ہیں کہ دنیا میں جس قدر اطاعت خلوص کے ساتھ کرکے درجات پالئے یا پھر عدم اطاعت کے وبال میں گرفتار جتنا کوئی نیچے گرتا چلا گیا اور اللہ کریم سب کے اعمال دیکھتے ہیں اور جہنم کے درجات نیچے کو چلتے ہیں۔ لقد من اللہ……………لفی ضلل مبین۔ مومنین پر تو اللہ کا خاص احسان ہے کہ انہی میں سے ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں اور دنیا کی ساری رونقیں آپ ﷺ ہی کے طفیل ہیں جن سے ہر نوع تخلیق متمتع ہورہی ہے۔ مگر مسلمانوں پر تو یہ احسان عظیم ہے کہ یہ لوگ آپ ﷺ کی برکات سے ابدی طور پر مالا مال ہو رہے ہیں اور باقی لوگ صرف دنیا میں وہ بھی مادی چیزوں سے۔ انسان کی اصل روح ہے اور بدن اس کا آلہ۔ اس لئے حقیقی نعمتیں بھی لذت روحانی اور نعمائے روحانی ہیں جن سے مومنین مستفید ہو رہے ہیں۔ پھر آپ ﷺ اگر کسی اور جنس سے ہوتے یعنی فرشتے یا جن ، تو انسان پوری طرح استفادہ نہ کرسکتا۔ یہ بہت بڑا احسان ہے کہ آپ کی بعثت سے بشریت کو وہ شرف نصیب ہوا کہ ساری مخلوق سے اس کی شان زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ آپ ﷺ کی بشریت کا انکار کفر ہے صاحب روح المعانی اسی آیہ کریمہ کے تحت لکھتے ہیں کہ شیخ ولی الدین عراقی (رح) سے پوچھا گیا کہ آپ ﷺ کو بشر اور عرب جاننا کیا صحت ایمانی کی شرط ہے۔ فرمایا ، ” بیشک ! “ پھر فرمایا ” اگر کوئی آپ ﷺ کی رسالت کا اقرار تو کرے مگر یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ آپ بشر ہیں یا فرشتے یا جن اور پھر عرب یا عجم کے رہنے والے تو اس کے کفر میں کوئی شک نہیں “۔ یہ آپ ﷺ کی ہی برکات ہیں کہ اللہ کی آیات تلاوت فرماتے ہیں یعنی ، کردیا ہم سخن بندوں کو اللہ سے تو نے اس مشت خاک کو وہ عزم اور وہ طلب بخشی کہ اب ذات باری سے ہمکلام ہے اور اپنے تمام امور میں اللہ سے رہنمائی حاصل کرتا ہے اسی کی خاطر مومنین کا تزکیہ فرماتے ہیں۔ تزکیہ : تزکیہ کیا ہے ؟ ایک قلبی اور روحانی کیفیت کا نام ہے جس کے طفیل دل میں خلوص اور اطاعت الٰہی کی محبت پیدا ہوجاتی ہے اور گناہ اور معصیت سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اس کا ثبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس زندگیاں ہیں کہ آپ ﷺ کی بعثت کے وقت دنیا کی اخلاقی حالت عموماً اور اہل عرب کی خصوصاً تباہی کے آخری کنارہ پر پہنچ چکی تھی کہ آپ ﷺ کی بعثت نے انسانیت کو حیات نوبخشی اور ان ہی لوگوں کو وہ اخلاقی عظمت اور خلوص وللہیت عطا فرمائی کہ تاریخ انسانی اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی۔ آپ ﷺ کی تعلیمات ، ارشادات اور اس کے ساتھ فیض صحبت تزکیہ کی اصل ہے صرف تعلیمات تو کافر بھی سنتا اور جانتا ہے مگر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے فیض صحبت سے محروم ہو کر تزکیہ سے محروم رہتا ہے اور مومن ایمان لاکر ان کیفیات کو حاصل کرتا ہے جو آپ ﷺ کی صحبت میں بٹتی ہیں چناچہ ایک نگاہ پانے والا صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوا اور یہ نعمت عظمیٰ بٹتی رہی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت میں آنے والے تابعین کہلائے اور ان سے تبع تابعین مستفید ہوئے پھر اہل اللہ نے اس نعمت کو ان کے مقدس سینوں سے حاصل کیا اور خلق خدا کے دلوں کو روشن کرتے رہے اور کرتے رہیں گے انشاء اللہ۔ کہ اسی کی برکت سے کتاب و حکمت یا کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے یہ تزکیہ یا فیض صحبت ہی حصول تعلیم کی اساس ہے۔ کتاب و حکمت کی وہ تعلیم جو انسان کے لئے راہ عمل کو آسان کردے جو اس کی عملی زندگی بن جائے ورنہ پھر محض حروف کی شناخت رہ جائے گی اسے تعلیم کہنا درست نہ ہوگا۔ یہ بھی وضاحت فرمادی کہ کتاب کے ساتھ مفہوم کتاب یا حکمت بھی ہے یعنی حدیث مبارک اور کتاب اللہ کی وہ شرح جو آپ ﷺ نے فرمائی۔ ورنہ قبل ازیں تو لوگ ایسی گمراہی میں مبتلا تھے جسے وہ خود بھی جانتے تھے یعنی اپنے گمراہ ہونے کا خود انہیں بھی علم تھا۔ اور غالباً آ ج کے دور کی مصیبت بھی یہی ہے کہ کیفیات باطنی دنیا میں بہت کم نصیب ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ جن کے نہ صرف دل روشن ہوں بلکہ دوسرے دلوں کو روشن کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہوں دنیا میں نظر نہیں آتے اور جب یہ نعمت نصیب نہیں ہوتی تو قوت عمل نصیب نہیں ہوتی۔ لوگ کتاب اللہ پڑھتے بھی ہیں پڑھاتے بھی ہیں مگر عمل بہت ہی کم نصیب ہوتا ہے اللہ کریم دلوں کی روشنی نصیب فرمائے۔ آمین۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کیا جائے جو ایک روشن دل رکھتے ہوں اور آپ ﷺ کی عطا کردہ کیفیات کے نہ صرف امین ہوں بلکہ انہیں تقسیم بھی کرسکیں اور دوسروں کے دلوں میں بھی وہ روشنی منتقل کریں جس کے وہ امین ہوں۔ چنیں مردے کہ یابی خاک اوشو اسیر حلقہ فتراک او شو ایسے ہی مردوں کی غلامی حیات آفریں ہوا کرتی ہے اور حقیقی علم سے آشنائی نصیب کرتی ہے یہی ترتیب قرآنی سے بھی مترشح ہوتا ہے کہ تلاوت آیات ، پھر تزکیہ اور اس کے بعد تعلیم کتاب و حکمت۔ یہ سب کچھ حاصل ہوجانے کے بعد بھی انسان تکالیف ومصائب میں گھر سکتا ہے کہ کبھی تو بحیثیت انسان اس سے کوئی لغزش ہو ہی جاتی ہے۔ تو یہ مصیبت تلافی مافات کا کام دیتی ہے اور کبھی ترقی درجات کا سبب بن جاتی ہے۔ نیز مومن ومنافق کی پہچان بھی ہوجاتی ہے۔ اولما اصابتکم مصیبۃ…………ان کنتم صادقین۔ کہ یوم احد جو نقصان تمہیں پہنچایا جتنا نقصان لشکر اسلامی کا ہو اس سے دو چند تو یوم بدر کا کفار کا ہوچکا ہے یعنی اے مسلمانو ! تم انہیں اس سے دو چند صدمہ پہنچا چکے ہو پھر اس بات پہ پریشانی کیسی ؟ دوسری اور اصل بات یہ ہے کہ آپ حضرات نے غیرارادی طور پر سہی ، درہ خالی کرکے نبی رحمت ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں کوتاہی کی ہے اس کا نتیجہ بھی ضرور سامنے آنا تھا۔ اور تیسری وجہ یہ بھی کہ اس مصیبت میں ڈال کر اللہ بعض مومنین کو تو شہادت سے سرفراز کرنا چاہتا تھا اور باقیوں کو بھی دنیا کی نگاہ میں سرفراز کرنا مقصود تھا۔ نیز منافقین کی شناخت کا باعث بھی یہی بات بنی کہ جب انہیں جنگ یا دشمن کی مدافعت کے لئے کہا گیا تو کہتے ہیں کہ اگر یہ جنگ ہوتی تو ہم ضرور ساتھ دیتے مگر یہ تو صریحا ً خود کشی ہے۔ ارشادات رسول ﷺ کے ساتھ یہ سلوک انہیں ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب لے گیا۔ حالانکہ یہ صرف زبانی بات تھی۔ ان کے دل میں تو اس سے کہیں زیادہ کدورت بھری ہوئی تھی اور اللہ تو ان کی پوشیدہ باتوں کو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ یہ بدبخت خود تو جنگ سے علیحدہ ہو ہی گئے تھے دوسروں کو بھی کہتے تھے کہ اے کاش ! ہمارا کہا مان لیتے تو یوں تہ تیع نہ کئے جاتے۔ تو ان سے کہیے کہ تم اپنے آپ سے تو موت کو منع کرکے دیکھو۔ جب تم اپنی ذات سے موت کو نہیں روک سکتے تو دوسروں سے موت کو منع کرنے کی طاقت کیسے رکھتے ہو ؟ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ عین اس روز بھی متعدد منافقین موت کا شکار ہوئے تھے۔ ولا تحسبن الذین قتلوا……………وان اللہ لا یضیع اجرالمومنین۔ شہید کی حیات : جنہیں تم مقتول سمجھتے ہو وہ شہید ہیں اور شہید کو کبھی مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ یہ ارشاد ان لوگوں کے بارے ہے جو لوگوں کے سامنے قتل ہوئے اور جنہیں قبروں میں دفن بھی کیا گیا۔ اس کے باوجود حکم یہ ہے کہ انہیں مردہ نہ سمجھا جائے بلکہ یہ زندہ ہیں۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ حیات روحانی مراد ہے تو وہ ہر مرنے والے کو حاصل ہے مومن ہو یا کافر ، روح دونوں کی زندہ رہتی ہے اور سوال و جواب قبر کے بعد نیک لوگوں کے لئے راحت اور کفار وفجار کے لئے عذاب ، قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حیات سے مراد وہ حیات ہے جو آخرت میں نصیب ہوگی تو صاحب تفسیر کبیر فرماتے ہیں کہ یہ قول معتزلہ کا ہے اور باطل ہے پھر اس کی وجوہات بیان فرماتے ہیں تو پھر یقینا ایسی زندگی ہے جس میں روح کا تعلق بدن سے بھی بہت مضبوط طور پر قائم ہے۔ اس قدر تعلق تو ہر روح کو بدن سے ہوتا ہے کہ جو ثواب یا عذاب روح کو پہنچے بدن کے ذرات بھی اس سے متاثر ہوں اور اپنے حصے کی راحت یارنج جھیلتے ہیں۔ مگر شہید کی روح کا تعلق اس سے بہت قوی ہوتا ہے کہ ارشاد ہوتا ہے انہیں رزق ملتا ہے کھاتے پیتے ہیں۔ یہاں کوئی کہے کہ شہید کی قبر میں مادی رزق تو نظر نہیں آتا ، تو آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ابیت عند ربی یطعمنی ویقینی۔ موجود ہے کہ کئی کئی روز حضور ﷺ کچھ کھاتے پیتے نہ تھے۔ اللہ کی طرف سے کھلائے پلائے جاتے تھے اور وہ رزق نہ مادی ہوتا تھا نہ کسی کو نظر آتا تھا۔ اس کے باوجود وجود اقدس کو بھی غذا کی کمی محسوس نہ ہوتی تھی نہ کوئی ایسا اثر مرتب ہوتا تھا ، ایسا ہی رزق شہید بھی پاتا ہے پھر لذت والم کا احساس وادارک رکھتا ہے جس کے لئے بھی حیات شرط ہے اور نہ صرف اپنی ذات سے بلکہ اپنے پسماندگان کے حالات سے بھی خوشی اور سرور حاصل کرتا ہے کہ وہ بھی اطاعت الٰہی کے راستے پر گامزن ہیں اور یہ تو انہوں نے دیکھ ہی لیا کہ اللہ مومنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ اس بات پہ خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے پسماندگان بھی آکر انعامات پائیں گے۔ تو اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ شہید زندہ ہوتا ہے اور روح کا تعلق بدن سے اس قدر قوی ہوتا ہے بدن نہ گلتا سڑتا ہے اور نہ خراب ہوتا ہے ، رزق دیا جاتا ہے ، خوشی اور الم کو محسوس کرتا ہے اس کا علم پہلے سے بھی وسیع ہوجاتا ہے کہ دنیا میں رہ جانے والوں کے حالات حاصل ہوتی ہے کہ عالم برزخ میں رہتا ہے۔ کھانا پینا ، سونا جاگنا راحت والم اور جملہ امور کا تعلق عالم برزخ سے ہے اگر شہید زندہ ہے تو یہ نبی کی برکات میں سے حصہ پاکر شہادت سے سرفراز ہو تو خود نبی کی حیات اس سے بھی اقویٰ ہوگی جس کی مثل غیر نبی کو نہیں ہوسکتی۔
Top