Asrar-ut-Tanzil - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
اللہ اور اس کے پیغمبر کی طرف سے ان مشرکوں سے جن سے تم نے معاہدہ کررکھا تھا دست برداری ہے
سورة التوبۃ اسے سورة برات بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں کفار سے برائت کے احکام نازل ہوئے اور قبول تو بہ کی بشارت کے باعث توبہ کہلاتی ہے ۔ اس میں عجیب بات یہ ہے کہ اس کے شروعی میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھا جاتا ۔ دراصل کسی بھی سورة کی مختلف آیات جب نازل ہوتیں تو بذریعہ وحی ان کا مقام بھی بتادیا جاتا چناچہ آپ ﷺ کاتنان وحی کو انھیں وہاں درج کرنے ارشاد فرماتے اور جب کوئی نئی سورة نازل ہوتی تو اس سے پہلے بسم اللہ لکھنے کا ارشاد ہوتا ۔ یہ مدنی اور آخری سورتوں میں سے ہے مگر جب نازل ہوئی تو بسم اللہ لکھنے کا حکم نازل نہ ہوا نہ ہی کاتبان وحی کو کچھ فرمایا گیا اور یہ اسی طرح بغیر بسم اللہ کے لکھ دی گئی۔ جب حضرت عثمان ؓ کے عہد میں تدوین قرآن کا کام ہوا تو سوال پیدا ہوا کہ اسے کہاں رکھا جائے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ یہ الگ سورت نہ ہو پہلے نازل ہونے والی سورت کا حصہ ہو تو آپ ؓ نے فرمایا کہ اسے انفال کے ساتھ ہی رکھو ، احتیاط کا تقاضایہی ہے کہ نہ اس میں بسم اللہ لکھنے کا ارشاد ہوا نہ یہ اشارہ ملتا ہے کہ واقعی یہ انفال کا حصہ ہے اگر چہ آپ ﷺ نے انفال کے متصل بعد اسے درج کروادیا ہے ۔ اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر کوئی مسلسل تلاوت کررہا ہو یا سورة انفال پڑھتا آرہا ہو تو بسم اللہ نہ پڑھے اور پڑھتا چلاجائے لیکن اگر کوئی اسی سورة سے شروع کرے یا اس کے درمیان سے شروع کرے تو وہ بسم اللہ سے ہی شروع کرے گا اور دوسرے جملے جو بعض نسخوں میں درج ہیں جیسے ، اعوذ باللہ من النارومن غضب الجبار وغیرہ تو ان کا کوئی ثبوت نہیں حضرت علی ؓ کی روایت ہے کہ چونکہ کفار سے معاہدے ختم کرنے کا حکم تھا اس لئے بسم اللہ نہ لکھی گئی تو یہ ایک نکتہ اور لطیفہ ہے کہ تکوینی طور پر ایسے اسباب پیدا کردیئے گئے بظاہر یہ وجہ ارشاد نہیں فرمائی گئی ۔ آیا ت 1 تا 6 اسرار و معارف سورۃ توبہ کے نزول سے پہلے مشرکین مکہ اور دیگر عرب قبائل سے معاہدات صلح تھے مگر ہر مرتبہ کفار نے ہی عہد شکنی کی جب تک موقع یا طاقت نہ پاتے معاہدے کا احترام کرتے مگر جیسے ہی طاقت پاتے تو عہد شکنی کے مرتکب ہوتے 6؁ھجری میں حدیلبیہ ہوئی جو دس سال کے لیے تھی جس کے شرائط وواقعات معروف ہیں 7 ھجری؁ میں آپ ﷺ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سمیت عمرہ ادا فرمایا مگر اس کے چندماہ بعد اہل مکہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور بنوخزاعہ کے خلاف بنوبکر کو قتل و غارت میں مددی بنوخذاعہ مسلمانوں کے حلیف تھے۔ اور یہ کھلم کھلا معاہدے کی خلاف ورزی تھی چناچہ آپ ﷺ نے جہاد کی تیاری کا حکم دی اگر چہ اہل مکہ نے ابوسفیان کو تجدید عہد کے لیے مدینہ بھیجا کیونکہ کفار بدرواحد اور خندق میں مسلمانوں کے ساتھ تایئدغیبی کا مشاہدہ کرچکے تھے مگر ابوسفیان کی ساری کوشش کے باوجود تجدید معاہدہ نہ ہوسکی اور آپ ﷺ نے 10 رمضان المبارک 8 ھجری؁ کو مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا اور مکہ مکرمہ فتح ہوگیا۔ قبل ازیں یہود مدینہ نے غزوئہ احزاب میں معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی ۔ اسی سال یعنی 8 ھجری؁ میں غزوئہ حنین ہوا پھر رجب 9 ھجری؁ میں غزوئہ بتوک پیش آیا اور بالآ خرذی الحجہ 9؁ ھجری میں تمام قبائل عرب سے معاہدے ختم کردینے کا حکم نازل ہوا کہ دراصل جزیرہ تمائے عرب کو اسلامی ریاست اور اسلام کا قلعہ بنانا مقصود تھا اگر چہ کفار کی مسلسل بدعہدی بھی ایک وجہ تھی مگر اسلام کا مزاج حاکمانہ ہے اس لیے کہ یہ اللہ کا حکم ہے ، لہٰذ امحکوم ہو کر رہنا اس کے مزاج کے خلاف ہے۔ اسلامی ریاست سرزمین عرب کو اس کی اساسی ریاست قرار دیا گیا اور تمام کفار سے صلح کے معاہدے ختم کرکے انھیں اختیار دیا گیا کہ وہ اسلام قبول کرکے اسلامی ریاست کے قیام میں شریک ہوں یا پھر مکہ مکرمہ سے چلے جائیں اور کہیں اور جاکر آباد ہوں ورنہ ان کے ساتھ جنگ کی جائے گی اور اس میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی گئی بلکہ مہلت دی گئی اور سب سے پہلے حج کے عظیم اجتماع میں حضرت ابو بکرصدیق اور حضرت علی ؓ عنھما کو روانہ فرمایا گیا کہ اعلان عام ہوجائے اور تمام عرب قبائل میں بات پہنچ جائے پھر یمن میں بھی حضرت علی ؓ کو بھیجا گیا کہ اعلان کردیں ایسانہ ہو کہ کسی تک خبر نہ پہنچے لہٰذا اسلامی ریاست کے قیام اور اسلامی حکومت کے لیے بھرپور کوشش آج بھی دین کا اہم فریضہ ہے محض گوشتہ نشینی اور ملکی سیاسیات سے کنارہ کشی جائز نہیں ۔ حج اکبر حج اکبر سے مراد مفسرین کرام کے نزدیک ہر سال کا حج ہے کیونکہ عمرہ کو حج اصغر کہا گیا ہے اس لتے حج کو حج اکبر کہہ دیا گیا اور اس سے حج کے پانچوں دن مراد ہیں یہ جو مشہور ہے کہ جمعہ کے روز یوم عرفہ ہو تو حج اکبر ہوتا ہے اس کی کوئی اصل نہیں یہ ضرور ہے کہ جب آپ ﷺ نے حجۃ الوداع ادا فرمایا تو عرفہ کے روز جمعہ تھا یہ ایک سعادت ضرور ہے مگر جس روز معاہدات کے ختم کا اعلان ہوا وہ 9 ھجری؁ کا یوم عرفہ تھا جو جمعہ کا دن تھا مگر اسے یوم حج اکبر فرمایا گیا۔ ایام حج میں عمرہ کرنا جائز نہیں ہاں ! مسئلہ احکام القرآن میں مذکور ہے کہ ان پانچ دنوں کرنا درست نہ ہوگا ۔ اب آیئے اعلان برأت کی طرف تو ارشاد ہو ا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے ان مشرکوں سے معاہدات تھے دست برداری کا اعلان کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے جب معاہدات بھی منسوخ کئے جا رہے ہیں تو جن سے کوئی معاہدہ ہی نہیں وہ بدرجہ اولیٰ یہ اعلان سن لیں کہ اول تو مشرکین مکہ جنہوں نے خود عہد کو توڑا اور یہی عمل فتح مکہ کا باعث ہوا وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں مگر اسلام ان سے بھی حسن سلوک کرتے ہوئے انھیں چار ماہ کی مہلت بخشا ہے کہ یہ حرمت والے مہینے تھے ۔ اللہ کریم نے فرمایا ان کا احترام بھی باقی رکھا جائے اور کفار کو فیصلہ کرنے کی مہلت بھی دی جائے نیز اگر وہ اسلامی ریاست سے کہیں جانا چاہیں تو انھیں فرصت دی جائے اور یہ بتادیا جائے کہ تم چار ماہ اگرچہ آرام سے چل پھر سکتے ہو مگر امن کی راہ ایک ہی ہے کہ اللہ کی اطاعت کرلو ورنہ اپنی ساری ریشہ دوانیوں سمیت تباہ ہوجاؤگے اور قدرت باری تعالیٰ کو عاجزنہ کرسکو گے ۔ نیز یہ تباہی صرف دنیا ہی کی نہ ہوگی بلکہ دنیوی ہلاکت کے بعد آخرت میں بھی تمہیں دردناک عذاب میں مبتلا کردیا جائے گا ۔ ایفائے عہد دوسرے وہ کفار جن سے معاہدہ تھا اور انھوں نے عہد شکنی نہیں کی نہ مسلمانوں کے مقابلہ صاحب تقویٰ لوگوں کو محبوبرکھتے ہیں یعنی کافر سے بھی ایفائے عہد میں تقویٰ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے اور محض بہانے تلاش کرکے معاہدہ ختم نہ کیا جائے یہ مسلمان کی دیانت کے خلاف ہے جو رب کریم کو ہرگز پسند نہیں ۔ اس آیہ مبارکہ کی رو سے بنی کنانہ کے دوقبیلوں بنی ضمرہ اور بنی مدبع کو مہلت مل گئی جن کے معاہدوں کی میعاد ابھی نوماہ باقی تھی نیز بروقت مطلع کردیا گیا کہ اس کے بعد میعاد بڑھائی نہ جائے گی ۔ تیسرے اور چوتھے وہ لوگ تھے جن کے ساتھ معاہدہ کی مدت مقررنہ تھی یاسرے سے کوئی معاہدہ ہی نہ تھا تو ان کے لیے بھی پہلی دوآیات کا حکم ہی نافذہوا کہ انھیں بھی چار ماہ کی مہلت مل گئی ۔ پھر ارشاد ہو ا کہ جب اشہرحرم گزرجائیں تو کفار ومشرکین میں سے جو لوگ نہ تو کفر سے توبہ کرکے ایمان قبول کریں اور نہ ہی مکہ سے باہر جائیں تو ان سے قتال کیا جائے پوری قوت کے ساتھ بغیر کسی رعایت کے کہ قتال میں نرمی دراصل بزدلی ہوتی ہے لہٰذ انھیں جہاں پاؤ قتل کردیا قید کردو ۔ ان کے راستے روک دو اور ہر جگہ ان پر تاک لگا کر بیٹھو یعنی پوری قوت سے ان سے ٹکراؤلیکن یہ بات یاد رہے کہ مومن کو کسی انسان سے دشمنی نہیں ہے ان کے کافر انہ عقائد اور اعمال سے ہے اگر وہ تو بہ کریں ایمان قبول کرلیں جس کی دلیل یہ ہے کہ نماز ادا کریں اور زکوۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو کہ بلاشک اللہ کریم بہت بڑی رحمت والا اور بخشنے والا ہے ۔ یہ بات روزوشن کی طرح واضح ہوگئی کہ ظلم کو مٹانے کے لیے ظالموں کی شوکت کو توڑا جائے گا ، اور اس میں کوئی رعایت نہ ہوگی ہاں ظلم سے باز آجائیں تو البتہ معاملہ دوسرا ہوگا ۔ اور ظلم سے بازآنا تو بہ کرنا ہے جس میں اعمال کی اصلاح بدرجہ اولیٰ ہے کہ نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اگر ایسانہ کریں تو محض دعوائے ایمان کی وجہ سے جنگ بندنہ ہوگی بلکہ فرائض کا منکر اسی سلوک کا مستحق ہوگا۔ توبہ سے مرادا اعمال کی اصلاح ہے جب کچھ لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کیا تو سید نا ابوبکر صدیق ؓ نے اسی آیہ کریمہ سے استدلال فرما کر ان پر فوج کشی کی تھی جسے تمام صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین نے قبول کیا تھا اور اگر مشرکین میں سے بھی کوئی آپ سے پناہ طلب کرلے کہ وہ اسلام کی حقانیت کے دلائل سے آگاہی حاصل کرے تو اسے نہ صرف پناہ دی جائے بلکہ جب فارغ ہو تو اسے اس کی امن کی جگہ بحفاظت پہنچادیاجائے تا کہ وہ قبول اسلام کے لتے آزادانہ رائے قائم کرسکے ۔ یہ حکم کفار کی اسلام سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہے کہ انھیں جاننے کا موقع دیاجائے گا اور یہ صرف اس صورت میں ہوگا وہ دین کو سمجھنے کے لیے آنا چاہے ۔ اگر غرض کوئی اور ہو مثلا تجارت وغیرہ تو مسلمانوں کی صوابدیدپہ ہوگا کہ اجازت دیں یا نہ دیں ۔ کفار کے لئے اسلامی ریاست میں آنے کی صورت نیز جو غیر مسلم اجازت لے کر آتے ، اس کے حالات سے بھی باخبر رہنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے اور جب میعا د پوری ہو یا کام ختم ہو تو اسے بحفاظت واپس پہنچا دیا جائے اور زائدازضرورت دارالاسلام میں ٹھہرنے کی اجازت نہ دی جائے نہ یہ کہ موجود ہ ریا ستوں کی طرح مشیرہی غیر ملکی کفار کو رکھا جائے اور مسلمانوں پر حکومت کفار کے مشورہ اور امداد سے کی جائے یہ بہت بڑاگنا ہے ۔ ان سات آیات میں کفار کی مختلف اقسام بلحاظ کردار اور تعلقات کے بیان فرما کر سب کے ساتھ سلوک کرنے کے اصول مقرر فرمادیئے اور یہ بات وضاحت سے ارشاد فرمادی کہ اسلامی ریاست کا قیام اور کفار کی ریشہ دوانیوں سے اس کی حفاظت ہی احیائے اسلام کا راستہ ہے اس میں ان لوگوں کے لیے بھی درس عبرت ہے کہ جو بےدین اور بدکار لوگوں کو مسلمانوں پہ مسلط کرنے میں اپنی رائے یا کوشش یا مال سے معاون بنتے ہیں کہ یہ بہت بڑاظلم ہے بلکہ ضروری ہے کہ ہر مسلمانوں پہ مسلط کرنے میں اپنی رائے یا کوشش یا مال سے معاون بنتے ہیں کہ یہ بہت بڑاظلم ہے بلکہ ضروری ہے کہ ہر مسلمان پوری محنت کے ساتھ ریاست اسلامی کے قیام اور بقا کی کوششوں میں حصہ دار بنے جس کا ایک ہی راستہ ہے کہ نہ صرف قیادت بلکہ کفا اور بدکاروں کا ہر طرح کا عمل دخل ختم کردیا جائے ۔
Top