Tafseer-e-Baghwi - Al-Hujuraat : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَرْفَعُوْٓا : نہ اونچی کرو اَصْوَاتَكُمْ : اپنی آوازیں فَوْقَ : اوپر، پر صَوْتِ النَّبِيِّ : نبی کی آواز وَلَا تَجْهَرُوْا : اور نہ زور سے بولو لَهٗ : اس کے سامنے بِالْقَوْلِ : گفتگو میں كَجَهْرِ : جیسے بلند آواز بَعْضِكُمْ : تمہارے بعض (ایک) لِبَعْضٍ : بعض (دوسرے) سے اَنْ : کہیں تَحْبَطَ : اکارت ہوجائیں اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَشْعُرُوْنَ : نہ جانتے (خبر بھی نہ) ہو
مومنو ! (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اسکے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو بیشک خدا سنتا جانتا ہے
1 ۔” یایھا الذین امنوا لا تقدموا بین یدی اللہ ورسولہ “ یعقوب (رح) نے ” لا تقدموا “ تاء اور دال کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے تقدم سے۔ یعنی (تم آگے نہ بڑھو)” لاتقدموا “ اور دیگر حضرات نے تاء کی پیش اور دال کی زیر کے ساتھ تقدیم سے پڑھا ہے اور یہ لازمی باب ہے تقدم کے معنی میں۔ بین اور تبین کی مثل اور کہا گیا ہے کہ یہ اپنے ظاہر پر متعدی ہے اور مفعول محذوف ہے یعنی ” لا تقدموا القول والفعل بین یدی اللہ ورسولہ “ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے آگے کسی قول وفعل کو نہ کرو۔ ابو عبیدہ (رح) فرماتے ہیں کہ عرب کہتے ہیں ” لا تقدم بین یدی الامام وبین یدالرب “ یعنی اس کے بغیر امرونہی میں جلدی نہ کر۔ بین الیدین کا معنی سامنے اور پیچھے ہے۔ یعنی ان دونوں کے امر اور نہی سے آگے نہ بڑھو۔ اور انہوں نے اس کے معنی میں اختلاف کیا ہے۔ شعبی (رح) نے جابر ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ یوم الاضحی کو قربانی کے بارے میں ہے اور یہی حسین ؓ کا قول ہے۔ یعنی تم نبی کریم ﷺ کے ذبح کرنے سے پہلے ذبح نہ کرو۔ حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں یوم نحر میں خطبہ دیا، فرمایا کہ ہم اس دن میں پہلا کام یہ کریں گے کہ ہم نماز پڑھیں گے، پھر ہم لوٹیں گے تو قربانی کریں گے۔ پس جس نے یہ کیا تو وہ ہماری سنت کو پہنچ گیا اور جس نے ہمارے نماز پڑھنے سے پہلے ذبح کیا تو وہ گوشت ہے جس کو اس نے اپنے گھر والوں کے لئے جلدی کرلیا ہے، یہ قربانی سے کچھ فائدہ نہ دے گا۔ مسروق (رح) نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ یوم شک کے روزے سے نہی کے بارے میں ہے یعنی تم روزہ نہ رکھو اس سے پہلے کہ تمہارے نبی روزہ رکھیں۔ ابن ابی ملیکہ (رح) سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیر ؓ نے ان کو خبر دی کہ بنو تمیم کا ایک قافلہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا قعقاع معبد بن زرارۃ کو امیر بنایا جائے اور حضرت عمر ؓ نے کہا بلکہ اقرع بن حابس ؓ کو تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا کہ آپ ؓ نے میری مخالفت کا ارادہ کیا ہوا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا میں نے آپ ؓ کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا۔ پس ان دونوں حضرات کا جھگڑا ہوا حتیٰ کہ ان کی آوازیں بلند ہوگئیں تو اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ” یایھا الذین امنوا لا تقدموا بین یدی اللہ ورسولہ “ اور نافع (رح) نے ابن عمر ؓ سے عن ابی ملیکہ نے اس کو روایت کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ پس نازل ہوئی ” یایھا الذین امنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی “ اللہ تعالیٰ کے قول ” اجر عظیم “ تک اور زیادہ کیا ہے کہ ابن زبیر ؓ نے کہا کہ اس آیت کے بعد حضرت عمر ؓ اتنی آواز میں بھی بات نہ کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کو سنادیں حتیٰ کہ آپ (علیہ السلام) خود قابل فہم آوازکا تقاضا کرتے اور اپنے والد یعنی حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے ذکر نہیں کیا اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت چند لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ کہتے تھے اگر اس بارے میں نازل کی جاتی اور اس میں کیا جاتا تو اللہ تعالیٰ نے اس بات کو ناپسند کیا اور ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ یعنی قتال اور دین کے شرائع کے بارے میں کسی امر کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بغیر نہ کرو۔ ” واتقوا اللہ “ اس کے حق کو ضائع کرنے اور اس کے امر کی مخالفت کرنے میں ” ان اللہ سمیع “ تمہارے اقوال کو ” علیم “ تمہارے افعال کو۔
Top