Mualim-ul-Irfan - Al-Hujuraat : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَرْفَعُوْٓا : نہ اونچی کرو اَصْوَاتَكُمْ : اپنی آوازیں فَوْقَ : اوپر، پر صَوْتِ النَّبِيِّ : نبی کی آواز وَلَا تَجْهَرُوْا : اور نہ زور سے بولو لَهٗ : اس کے سامنے بِالْقَوْلِ : گفتگو میں كَجَهْرِ : جیسے بلند آواز بَعْضِكُمْ : تمہارے بعض (ایک) لِبَعْضٍ : بعض (دوسرے) سے اَنْ : کہیں تَحْبَطَ : اکارت ہوجائیں اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَشْعُرُوْنَ : نہ جانتے (خبر بھی نہ) ہو
اے ایمان والو ! نہ بلند کرو اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر ، اور نہ بولو جہر سے اس کے سامنے بات کرنے میں جیسا کہ تم جہر کرتے ہو بعض بعض کے سامنے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو
ربط آیات اس سورة مبارکہ میں وہ اصول اور قوانین بیان کیے گئے ہیں جن پر عمل کر کے مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی امن و سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ ان کے جماعتی نظم و نسق میں استحکام پیدا ہو سکتا ہے اور ان کے امور سلطنت بہتر طریقے سے انجام دیے جاسکتے ہیں ۔ گزشتہ آیت کریمہ میں دو اصولوں کا تذکرہ ہوچکا ہے ، پہلا اصول یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے اور حکم سے پہلے پیش قدمی نہ کرو ، بلکہ ہر حالت میں انہی کے فیصلے پر سر تسلیم خم کر دو ۔ اور دوسرا اصول یہ بیان ہوا کہ تقویٰ اختیار کرو یعنی ہر حالت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ نبی کا ادب و احترام اب تیسرے نمبر پر نبی (علیہ السلام) کے ادب و احترام کا اصول بیان کیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے یایھا الذین امنوا اے ایمان والو ! لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی اپنی آوازوں کو نبی (علیہ السلام) کی آواز سے بلند نہ کرو ۔ اور چوتھی بات یہ فرمائی ولا تجھروالہ بالقول کجھربعضکم لبعض اور نہ نبی کے سامنے اونچی آواز سے بولو جیسا کہ تم ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بولتے ہو ۔ اگر ایسا کرو گے تو کہیں ایسا نہ ہو ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم نبی (علیہ السلام) کی مجلس میں بیٹھے ہو تو نبی کے ادب کا تقاضا یہ ہے کہ گفتگو کرتے وقت تمہاری آواز نبی (علیہ السلام) کی آواز سے کسی صورت میں بھی بلند نہیں ہونی چاہئے اور اگر حضور ﷺ کے ساتھ براہ راست بات کرو تو تمہاری آواز آپس کی گفتگو کی طرح اونچی نہیں ہونی چاہئے۔ حضور ﷺ کی مجلس میں بیٹھ کر خواہ آپس میں بات چیت کردیا خود حضور ﷺ کی ذات بابرکات سے براہ راست مخاطب ہو ۔ اپنی آواز کو ہمیشہ پست رکھو ۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو ممکن ہے کہ اللہ کے نبی کے دل میں کدورت پیدا ہوجائے جس سے اللہ ناراض ہوجائے اور تمہارے تمام نیک اعمال ہی ضائع ہوجائیں ۔ مسلمانوں کے لیے اللہ کا یہ حکم ہے کہ وہ اللہ کے نبی کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھیں ۔ بےتکلفی اور اونچی آواز سے بات نہ کریں بلکہ شائستگی سے بات کریں ۔ عام انسانی سوسائٹی کا بھی یہی دستور ہے کہ کوئی شائستہ اور مہذب بیٹا اپنے باپ کے سامنے ، ایک لائق شاگرد اپنے استاد کے سامنے ، یا ایک مخلص مرید اپنے مرشد کے سامنے ، یا ایک ماتحت اپنے افسر کے سامنے ہمیشہ ادب کو ملحوظ رکھتا ہے اور اونچی آواز سے بات کرتا ۔ ادھر اللہ کا نبی ہے جس کا مرتبہ ہر مخلوق سے زیادہ ہے اور اس کے ادب و احترام کو ہر ادب پر فوقیت حاصل ہے لہٰذا پوری احتیاط رکھنی چاہیے کہ اللہ کے نبی کی مجلس میں بیٹھ کر کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہوجائے جس سے آپ کے ادب و احترام میں فرق آتا ہو۔ حضور ﷺ کی نا خوشی کی وجہ سے ایک امتی کا کوئی ٹھکانہ باقی نہیں رہے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کی عمر بھر کی ساری محنت ہی برباد ہوجائے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قرآن حکیم کے مطابق اعمال کا ضیاع کفر ، شرک ، نفاق یا ریا سے ہوتا ہے ، اور محض آواز بلند کرنے سے ایسا نہیں ہوتا تاوقتیکہ یہ فعل استحفاف ، استہزاء یا ایذاء رسانی کے لیے ہو ۔ خاص طور پر اگر اللہ کے نبی کی شان میں اس قسم کی بےادبی یا گستاخی کی جائے تو کفر لازم آتا ہے ، لہٰذا ایسے شخص کے اعمال ضائع ہوجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ جس طرح حضور ﷺ کی حیات طیبہ میں آپ کا ادب ملحوظ رکھنا ضروری تھا ، اسی طرح آپ کی وفات کے بعد آپ کی احادیث اور فرامین کو پڑھتے اور سنتے وقت بھی ادب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور اگر کوئی شخص حضور ﷺ کی قبر شریف پر حاضر ہوتا ہے تو وہاں بھی ادب و احترام کی پاسداری ہونی چاہئے۔ امام جلال الدین سیوطی (رح) حضرت شیخ الاسلام (رح) اور بعض دیگر مفسرین فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے خلفائ ، علمائے ربانیین اور اولوالامر حضرات کے ساتھ بھی درجہ بدرجہ ادب سے پیش آنا چاہئے کیونکہ فرق مراتب کے بغیر بہت سی خرابیاں ، بگاڑ اور فتنے پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ دیگر محترم ہستیوں میں صحابہ کرام ؓ ، محدثین ، متکلمین ، مجتہدین ، فقہاء اور دیگر بزرگان دین لائق احترام ہیں ۔ جنہوں نے دین اسلام کی حتی الامکان خدمت کی ہے۔ صحابہ کرام ؓ کا عمل اپنے نبی کا ادب و احترام صحابہ کرام ؓ سے بڑھ کر کون کرسکتا ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کی ایک مجلس میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ موجود تھے۔ آپ کے پاس بنی تمیم کے کچھ لوگ آئے ، حضور ﷺ ان میں سے کسی شخص کو ان کا امیر مقرر کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلہ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے قعقاع ابن معید ؓ کا نام تجویز کیا ۔ دوسری طرف حضرت عمرفاروق ؓ نے اقرع ابن جابس ؓ کے حق میں رائے دی ۔ اس ضمن میں دونوں حضرات کا آپس میں تکرار ہوگیا ۔ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ عمر ؓ ! تم ہمیشہ میری رائے کی مخالفت کرتے ہو ، حضرت عمر ؓ نے کہا کہ میں نے بالکل ٹھیک رائے دی ہے۔ اس تکرار میں دونوں حضرات کی آوازیں بھی بلند ہوگئیں ۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو دونوں حضرات اپنی اس حرکت پر سخت نادم ہوئے اور پھر اس کے بعد نبی (علیہ السلام) کی مجلس میں کبھی اونچی آواز سے بات نہیں کی ، بلکہ عمر بھی اپنی آوازوں کو پست رکھا حتیٰ کہ حضرت عمر ؓ کی بات کو سمجھنے کے لیے ان سے بار بار پوچھنا پڑتا تھا۔ آپ اس قدر محتاط ہوگئے کہ اونچا بولنے سے کہیں اعمال ہی ضائع نہ ہوجائیں۔ حضرت ثابت ابن قیس انصاری ؓ کی آواز بھی قدرتی طور پر بلند تھی ۔ جب بھی بات کرتے اونچی آواز میں کرتے ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اے ایمان والو ! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ہی ضائع ہوجائیں ، تو حضرت ثابت ؓ اپنی آواز کی بلندی کے ڈر سے گھر میں بیٹھ گئے ۔ کہنے لگے کہ اگر حضور ﷺ کی مجلس میں میری آواز بلند ہوگئی تو مجھے ڈر ہے کہ میرے اعمال ہی ضائع نہ ہوجائیں ۔ حضور ﷺ والسلام نے حضرت معاذ ؓ سے دریافت کیا کہ ثابت ؓ نظر نہیں آ رہا ہے ، کیا وہ بیمار ہوگیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا ، حضور ! وہ تو میرا پڑوسی ہے مگر مجھے اس کی بیماری کی کوئی خبر نہیں ۔ پھر جب گھرجا کر آپ کا پتہ کیا تو انہوں نے یہ عذر پیش کیا کہ میری آواز قدرتی طور پر بلند ہے اور مجھے اپنے منافق ہونے کا خطرہ ہے ، لہٰذا میں اعمال کے ضیاع کے ڈر سے گھر میں بیٹھ گیا ہوں ۔ آپ کو اس بات کی خبر ہوئی تو فرمایا کہ اس نے آیت کا مطلب ٹھیک سے نہیں سمجھا ، اس کے اعمال ضائع نہیں ہوں گے اور وہ تو جنتی ہے ۔ پھر جب حضرت ثابت بن قیس ؓ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا قیس ؓ کے بیٹے ! کیا تمہیں یہ چیز پسند نہیں کہ تمہاری زندگی پسندیدہ گزرے اور تم شہادت کی موت پائو ؟ اس پر حضرت ثابت ؓ خوش ہوگئے ، چناچہ پھر ایسا ہی ہوا ۔ آپ کی زندگی تو پسندیدہ ہی تھی کیونکہ آپ کا رجوع ہمیشہ نیکی کی طرف رہتا تھا۔ پھر آپ کی شہادت حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ خلافت میں ہوئی ۔ مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں حضرت خالد بن ولید ؓ سپہ سالار تھے اور حضرت ثابت بن قیس ؓ اور حضرت سالم ؓ اس فوج میں شامل تھے۔ اس لڑائی میں بارہ سو سترہ سو حفاظ قرآن اور قاری شہید ہوئے اور ہلاک شدگان کی کل تعداد ستائیس ہزار تک پہنچی ہے۔ یہ بہت بڑا فتنہ تھا جس کو اللہ نے فرو کیا ۔ اس جنگ میں بعض مواقع ایسے بھی آئے کہ مسلمانوں کو پسپا ہونا پڑا ۔ اس موقع پر حضرت ثابت ؓ اور آپ کے ساتھی مجاہد سالم ؓ کے درمیان اس معاملہ میں گفتگو ہوئی تو حضرت سالم ؓ کہنے لگے کہ حضور ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں تو مسلمان کبھی پسپا نہیں ہوئے۔ اس پر دونوں حضرات نے کہا کہ ہم دشمن کا مقابلہ اس طریقے سے کریں گے کہ بھاگنے کی کوئی ضروت باقی نہ رہے۔ چناچہ انہوں نے میدان جنگ میں گڑھا کھودا اور پھر اس میں پائوں ٹکا کر دشمن کا مقابلہ کیا حتیٰ کہ دونوں حضرات نے جام شہادت نوش فرمایا۔ امام قرطبی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین نے لکھا ہے کہ جب حضرت ثابت ؓ شہید ہوئے تو انہوں نے عمدہ قسم کی زرہ پہن رکھی تھی ۔ شہادت کے بعد یہ زرہ کسی دوسرے مسلمان نے اتار کر اپنے پاس رکھ لی ۔ پھر اتفاق ایسا ہوا کہ کسی مسلمان کو حضرت ثابت ؓ خواب میں ملے اور اس سے کہا کہ فلاں آدمی نے میری زرہ اتار لی ہے اور اسے فلاں مقام پر رکھا ہوا ہے۔ آپ نے یہاں تک نشاندہی کی کہ یہ زرہ ایک ہانڈی کے نیچے ہے اور اس کے اوپر فلاں فلاں سامان پڑا ہے اور زرہ اتارنے والا شخص شہر کے فلاں حصے میں رہتا ہے ۔ پھر آپ نے خواب دیکھنے والے شخص کو یہ وصیت بھی کی کہ مدینہ جا کر خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے کہنا کہ میں نے فلاں آدمی کا اتنا قرض دینا ہے اس کو نظر انداز کریں ۔ جب وہ آدمی مدینہ واپس آیا تو اس نے خواب کا سارا واقعہ حضرت صدیق ؓ کو بتا دیا ، چناچہ ان کی نشاندہی کے مطابق وہ زرہ بھی برآمد ہوگئی ، اور خلیفہ وقت نے اس صحابی رسول کی وصیت کو بھی پورا کیا ۔ حضرت ثابت ؓ کو اللہ نے یہ شرف بخشا کہ آپ کی خواب والی وصیت کو نافذ کیا گیا ۔ اس کے علاوہ اس قسم کا کوئی واقعہ تاریخ میں نہیں ملتا۔ با ادب لوگوں کی تعریف اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے والے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ان الذین یغضون اصواتھم عند رسول اللہ بیشک وہ لوگ جو اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں اولئک الذین امتحن اللہ قلوبھم للتقوی یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے خالص کردیا ہے ۔ جو لوگ نبی کی مجلس میں بیٹھ کر اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں اللہ نے ان کے دلوں میں ادب کی تحم ریزی کی ہے اور ان کو تقویٰ اور طہارت کے لیے خالص بنا دیا ہے۔ لھم مغفرۃ واجر عظیم ان کے لیے بخشش اور اجر عظیم ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ شعائر اللہ میں سے چار اعظم شعائر ہیں یعنی قرآن پاک ، پیغمبر کی ذات ِ مبارکہ ، خانہ کعبہ اور نماز ۔ ان چاروں شعائر کی تعظیم زیادہ ملحوظ رکھنی چاہئے ، چونکہ پیغمبر کی ذات بھی ان اعظم شعائر میں شامل ہے لہٰذا آپ کے ادب کے خلاف کوئی بات نہیں ہونی چاہیے ۔ خلفائے راشدین ؓ اور دیگر صحابہ کرام ؓ نے نبی کے آداب کا بہترین نمونہ پیش کیا ۔ باہر سے آوازیں دینے کی ممانعت ایک دفعہ قبیلہ تمیم کا ایک وفد حضور علیہ الصلوٰۃکی ملاقات کے لیے حاضر ہوا ۔ آپ اس وقت ازواج مطہرات ؓ میں سے کسی ام المومنین ؓ کے کمرے میں آرام فرما رہے تھے۔ جونہی یہ لوگ وہاں پہنچے تو انہوں نے باہر سے آوازیں دینی شروع کردیں یا محمد اخرج الینا یعنی اے محمد ! ﷺ ہمارے پاس باہر تشریف لائیں ، اگلی آیت میں اللہ نے اسی واقعہ پر لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے ارشاد ہوتا ہے ان الذین ینارویک من وراء الحجرات اکثرھم لا یعقلون بیشک وہ لوگ جو آپ کو کمروں کی دیواروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر سمجھ نہیں رکھتے ۔ باہر سے آوازیں دیکر انہوں نے بےعقلی کی بات کی کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت آپ کسی اہم کام میں مصروف ہوں یا آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ آرام فرما رہے ہوں اور فوری طور پر باہر نہ آنا چاہتے ہوں ۔ ایسی حالت میں زور زور سے آوازیں دینا خلاف تہذیب اور بعید از عقل ہے۔ ایک معمولی حیثیت کا آدمی بھی اپنے معمولات میں اس قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرتا چہ جائیکہ نبی کی ذات کو وقت بےوقت زحمت دی جائے اور آپ کے ادب و احترام کا خیال نہ رکھا جائے ۔ اگر ضرور ہی بلانا تھا تو کسی بچے کے ذریعے اندر پیغام بھیجا جاسکتا تھا ، باہر سے آوازیں دینا تو بالکل نا شائستگی کا مظاہرہ تھا۔ اللہ نے فرمایا ولو انھم صبروا حتی تخرج الیھم اور اگر وہ لوگ صبر کرتے حتیٰ کہ حضور ﷺ خود ان کے پاس باہر نکل آتے لکان خیرا ً لھم تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ مطلب یہ کہ ان لوگوں کو چاہئے تھا کہ باہر سے آوازیں دینے کی بجائے حضور ﷺ کے خود باہر تشریف لانے کا انتظار کرتے کہ ادب نبوت کا یہی تقاضا تھا ، یہ چوتھا اصول ہوگیا ۔ ادب و احترام کی مثال امام جلال الدین سیوطی (رح) ، امام قرطبی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ جلیل القدر صحابی اور حضور ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔ حضور ﷺ کی وفات کے بعد آپ ہی کے حکم کے مطابق جب حضرت ابی ابن کعب ؓ کے گھر قرآن سیکھنے کے لیے جاتے تو جا کر آپ کے دروازے پر بیٹھ جاتے یا وہیں کھڑے رہتے۔ آپ نہ تو باہر سے آواز دیتے اور نہ دروازہ کھٹکھٹاتے ۔ پھر جب حضرت ابی ابن کعب ؓ خود گھر سے باہر تشریف لاتے تو ان سے ملاقات ہوتی ایک دفعہ حضرت ابی ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا کہ جب آپ آتے ہیں تو دروازے پر دستک دے دیا کریں ۔ انہوں نے کہا کہ شیخ ، بزرگ یا استاد قوم میں اس طرح ہوتا ہے جس طرح نبی اپنی قوم میں ہوتا ہے۔ اور اللہ کے نبی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر یہ لوگ صبر کرتے حتیٰ کہ نبی (علیہ السلام) خود ان کے پاس نکل کر آتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا ، لہٰذا میں اپنے شیخ کو آواز دے کر یا دروازہ کھٹکھٹا کر تکلیف نہیں دینا چاہتا ، میں تو ادب کی خاطر آ کر بیٹھ جاتا ہوں کہ باہر آئیں گے تو ملاقات ہوجائے گی۔ تمام بزرگان دین نے ادب کو ہمیشہ ملحوظ رکھا ۔ ادب کی وجہ سے ہی فیض حاصل ہوتا ہے ، جیسے فارسی کا مقولہ ہے۔ باادب شو بادب شوبا ادب بے ادب محروم مانداز فضل رب ہمیشہ با ادب رہو کیونکہ بےادب آدمی اللہ کے فضل سے محروم رہتا ہے۔ فرمایا اگر یہ صبر کرتے یہاں تک کہ حضور ﷺ خود باہر تشریف لاتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا ۔ اس تنبیہ کے باوجود اللہ نے مایوس نہیں کیا بلکہ فرمایا واللہ غفور رحیم اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے وہ چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو معاف کردیتا ہے ، لہٰذا محتاط رہیں کہ آئندہ خلاف ادب کوئی حرکت نہ ہو ۔
Top