Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Hujuraat : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
لَا تَرْفَعُوْٓا
: نہ اونچی کرو
اَصْوَاتَكُمْ
: اپنی آوازیں
فَوْقَ
: اوپر، پر
صَوْتِ النَّبِيِّ
: نبی کی آواز
وَلَا تَجْهَرُوْا
: اور نہ زور سے بولو
لَهٗ
: اس کے سامنے
بِالْقَوْلِ
: گفتگو میں
كَجَهْرِ
: جیسے بلند آواز
بَعْضِكُمْ
: تمہارے بعض (ایک)
لِبَعْضٍ
: بعض (دوسرے) سے
اَنْ
: کہیں
تَحْبَطَ
: اکارت ہوجائیں
اَعْمَالُكُمْ
: تمہارے عمل
وَاَنْتُمْ
: اور تم
لَا تَشْعُرُوْنَ
: نہ جانتے (خبر بھی نہ) ہو
اے ایمان والو ! نہ بلند کرو اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر ، اور نہ بولو جہر سے اس کے سامنے بات کرنے میں جیسا کہ تم جہر کرتے ہو بعض بعض کے سامنے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو
ربط آیات اس سورة مبارکہ میں وہ اصول اور قوانین بیان کیے گئے ہیں جن پر عمل کر کے مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی امن و سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ ان کے جماعتی نظم و نسق میں استحکام پیدا ہو سکتا ہے اور ان کے امور سلطنت بہتر طریقے سے انجام دیے جاسکتے ہیں ۔ گزشتہ آیت کریمہ میں دو اصولوں کا تذکرہ ہوچکا ہے ، پہلا اصول یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے اور حکم سے پہلے پیش قدمی نہ کرو ، بلکہ ہر حالت میں انہی کے فیصلے پر سر تسلیم خم کر دو ۔ اور دوسرا اصول یہ بیان ہوا کہ تقویٰ اختیار کرو یعنی ہر حالت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ نبی کا ادب و احترام اب تیسرے نمبر پر نبی (علیہ السلام) کے ادب و احترام کا اصول بیان کیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے یایھا الذین امنوا اے ایمان والو ! لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی اپنی آوازوں کو نبی (علیہ السلام) کی آواز سے بلند نہ کرو ۔ اور چوتھی بات یہ فرمائی ولا تجھروالہ بالقول کجھربعضکم لبعض اور نہ نبی کے سامنے اونچی آواز سے بولو جیسا کہ تم ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بولتے ہو ۔ اگر ایسا کرو گے تو کہیں ایسا نہ ہو ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم نبی (علیہ السلام) کی مجلس میں بیٹھے ہو تو نبی کے ادب کا تقاضا یہ ہے کہ گفتگو کرتے وقت تمہاری آواز نبی (علیہ السلام) کی آواز سے کسی صورت میں بھی بلند نہیں ہونی چاہئے اور اگر حضور ﷺ کے ساتھ براہ راست بات کرو تو تمہاری آواز آپس کی گفتگو کی طرح اونچی نہیں ہونی چاہئے۔ حضور ﷺ کی مجلس میں بیٹھ کر خواہ آپس میں بات چیت کردیا خود حضور ﷺ کی ذات بابرکات سے براہ راست مخاطب ہو ۔ اپنی آواز کو ہمیشہ پست رکھو ۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو ممکن ہے کہ اللہ کے نبی کے دل میں کدورت پیدا ہوجائے جس سے اللہ ناراض ہوجائے اور تمہارے تمام نیک اعمال ہی ضائع ہوجائیں ۔ مسلمانوں کے لیے اللہ کا یہ حکم ہے کہ وہ اللہ کے نبی کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھیں ۔ بےتکلفی اور اونچی آواز سے بات نہ کریں بلکہ شائستگی سے بات کریں ۔ عام انسانی سوسائٹی کا بھی یہی دستور ہے کہ کوئی شائستہ اور مہذب بیٹا اپنے باپ کے سامنے ، ایک لائق شاگرد اپنے استاد کے سامنے ، یا ایک مخلص مرید اپنے مرشد کے سامنے ، یا ایک ماتحت اپنے افسر کے سامنے ہمیشہ ادب کو ملحوظ رکھتا ہے اور اونچی آواز سے بات کرتا ۔ ادھر اللہ کا نبی ہے جس کا مرتبہ ہر مخلوق سے زیادہ ہے اور اس کے ادب و احترام کو ہر ادب پر فوقیت حاصل ہے لہٰذا پوری احتیاط رکھنی چاہیے کہ اللہ کے نبی کی مجلس میں بیٹھ کر کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہوجائے جس سے آپ کے ادب و احترام میں فرق آتا ہو۔ حضور ﷺ کی نا خوشی کی وجہ سے ایک امتی کا کوئی ٹھکانہ باقی نہیں رہے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کی عمر بھر کی ساری محنت ہی برباد ہوجائے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قرآن حکیم کے مطابق اعمال کا ضیاع کفر ، شرک ، نفاق یا ریا سے ہوتا ہے ، اور محض آواز بلند کرنے سے ایسا نہیں ہوتا تاوقتیکہ یہ فعل استحفاف ، استہزاء یا ایذاء رسانی کے لیے ہو ۔ خاص طور پر اگر اللہ کے نبی کی شان میں اس قسم کی بےادبی یا گستاخی کی جائے تو کفر لازم آتا ہے ، لہٰذا ایسے شخص کے اعمال ضائع ہوجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ جس طرح حضور ﷺ کی حیات طیبہ میں آپ کا ادب ملحوظ رکھنا ضروری تھا ، اسی طرح آپ کی وفات کے بعد آپ کی احادیث اور فرامین کو پڑھتے اور سنتے وقت بھی ادب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور اگر کوئی شخص حضور ﷺ کی قبر شریف پر حاضر ہوتا ہے تو وہاں بھی ادب و احترام کی پاسداری ہونی چاہئے۔ امام جلال الدین سیوطی (رح) حضرت شیخ الاسلام (رح) اور بعض دیگر مفسرین فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے خلفائ ، علمائے ربانیین اور اولوالامر حضرات کے ساتھ بھی درجہ بدرجہ ادب سے پیش آنا چاہئے کیونکہ فرق مراتب کے بغیر بہت سی خرابیاں ، بگاڑ اور فتنے پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ دیگر محترم ہستیوں میں صحابہ کرام ؓ ، محدثین ، متکلمین ، مجتہدین ، فقہاء اور دیگر بزرگان دین لائق احترام ہیں ۔ جنہوں نے دین اسلام کی حتی الامکان خدمت کی ہے۔ صحابہ کرام ؓ کا عمل اپنے نبی کا ادب و احترام صحابہ کرام ؓ سے بڑھ کر کون کرسکتا ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کی ایک مجلس میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ موجود تھے۔ آپ کے پاس بنی تمیم کے کچھ لوگ آئے ، حضور ﷺ ان میں سے کسی شخص کو ان کا امیر مقرر کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلہ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے قعقاع ابن معید ؓ کا نام تجویز کیا ۔ دوسری طرف حضرت عمرفاروق ؓ نے اقرع ابن جابس ؓ کے حق میں رائے دی ۔ اس ضمن میں دونوں حضرات کا آپس میں تکرار ہوگیا ۔ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ عمر ؓ ! تم ہمیشہ میری رائے کی مخالفت کرتے ہو ، حضرت عمر ؓ نے کہا کہ میں نے بالکل ٹھیک رائے دی ہے۔ اس تکرار میں دونوں حضرات کی آوازیں بھی بلند ہوگئیں ۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو دونوں حضرات اپنی اس حرکت پر سخت نادم ہوئے اور پھر اس کے بعد نبی (علیہ السلام) کی مجلس میں کبھی اونچی آواز سے بات نہیں کی ، بلکہ عمر بھی اپنی آوازوں کو پست رکھا حتیٰ کہ حضرت عمر ؓ کی بات کو سمجھنے کے لیے ان سے بار بار پوچھنا پڑتا تھا۔ آپ اس قدر محتاط ہوگئے کہ اونچا بولنے سے کہیں اعمال ہی ضائع نہ ہوجائیں۔ حضرت ثابت ابن قیس انصاری ؓ کی آواز بھی قدرتی طور پر بلند تھی ۔ جب بھی بات کرتے اونچی آواز میں کرتے ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اے ایمان والو ! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ہی ضائع ہوجائیں ، تو حضرت ثابت ؓ اپنی آواز کی بلندی کے ڈر سے گھر میں بیٹھ گئے ۔ کہنے لگے کہ اگر حضور ﷺ کی مجلس میں میری آواز بلند ہوگئی تو مجھے ڈر ہے کہ میرے اعمال ہی ضائع نہ ہوجائیں ۔ حضور ﷺ والسلام نے حضرت معاذ ؓ سے دریافت کیا کہ ثابت ؓ نظر نہیں آ رہا ہے ، کیا وہ بیمار ہوگیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا ، حضور ! وہ تو میرا پڑوسی ہے مگر مجھے اس کی بیماری کی کوئی خبر نہیں ۔ پھر جب گھرجا کر آپ کا پتہ کیا تو انہوں نے یہ عذر پیش کیا کہ میری آواز قدرتی طور پر بلند ہے اور مجھے اپنے منافق ہونے کا خطرہ ہے ، لہٰذا میں اعمال کے ضیاع کے ڈر سے گھر میں بیٹھ گیا ہوں ۔ آپ کو اس بات کی خبر ہوئی تو فرمایا کہ اس نے آیت کا مطلب ٹھیک سے نہیں سمجھا ، اس کے اعمال ضائع نہیں ہوں گے اور وہ تو جنتی ہے ۔ پھر جب حضرت ثابت بن قیس ؓ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا قیس ؓ کے بیٹے ! کیا تمہیں یہ چیز پسند نہیں کہ تمہاری زندگی پسندیدہ گزرے اور تم شہادت کی موت پائو ؟ اس پر حضرت ثابت ؓ خوش ہوگئے ، چناچہ پھر ایسا ہی ہوا ۔ آپ کی زندگی تو پسندیدہ ہی تھی کیونکہ آپ کا رجوع ہمیشہ نیکی کی طرف رہتا تھا۔ پھر آپ کی شہادت حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ خلافت میں ہوئی ۔ مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں حضرت خالد بن ولید ؓ سپہ سالار تھے اور حضرت ثابت بن قیس ؓ اور حضرت سالم ؓ اس فوج میں شامل تھے۔ اس لڑائی میں بارہ سو سترہ سو حفاظ قرآن اور قاری شہید ہوئے اور ہلاک شدگان کی کل تعداد ستائیس ہزار تک پہنچی ہے۔ یہ بہت بڑا فتنہ تھا جس کو اللہ نے فرو کیا ۔ اس جنگ میں بعض مواقع ایسے بھی آئے کہ مسلمانوں کو پسپا ہونا پڑا ۔ اس موقع پر حضرت ثابت ؓ اور آپ کے ساتھی مجاہد سالم ؓ کے درمیان اس معاملہ میں گفتگو ہوئی تو حضرت سالم ؓ کہنے لگے کہ حضور ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں تو مسلمان کبھی پسپا نہیں ہوئے۔ اس پر دونوں حضرات نے کہا کہ ہم دشمن کا مقابلہ اس طریقے سے کریں گے کہ بھاگنے کی کوئی ضروت باقی نہ رہے۔ چناچہ انہوں نے میدان جنگ میں گڑھا کھودا اور پھر اس میں پائوں ٹکا کر دشمن کا مقابلہ کیا حتیٰ کہ دونوں حضرات نے جام شہادت نوش فرمایا۔ امام قرطبی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین نے لکھا ہے کہ جب حضرت ثابت ؓ شہید ہوئے تو انہوں نے عمدہ قسم کی زرہ پہن رکھی تھی ۔ شہادت کے بعد یہ زرہ کسی دوسرے مسلمان نے اتار کر اپنے پاس رکھ لی ۔ پھر اتفاق ایسا ہوا کہ کسی مسلمان کو حضرت ثابت ؓ خواب میں ملے اور اس سے کہا کہ فلاں آدمی نے میری زرہ اتار لی ہے اور اسے فلاں مقام پر رکھا ہوا ہے۔ آپ نے یہاں تک نشاندہی کی کہ یہ زرہ ایک ہانڈی کے نیچے ہے اور اس کے اوپر فلاں فلاں سامان پڑا ہے اور زرہ اتارنے والا شخص شہر کے فلاں حصے میں رہتا ہے ۔ پھر آپ نے خواب دیکھنے والے شخص کو یہ وصیت بھی کی کہ مدینہ جا کر خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے کہنا کہ میں نے فلاں آدمی کا اتنا قرض دینا ہے اس کو نظر انداز کریں ۔ جب وہ آدمی مدینہ واپس آیا تو اس نے خواب کا سارا واقعہ حضرت صدیق ؓ کو بتا دیا ، چناچہ ان کی نشاندہی کے مطابق وہ زرہ بھی برآمد ہوگئی ، اور خلیفہ وقت نے اس صحابی رسول کی وصیت کو بھی پورا کیا ۔ حضرت ثابت ؓ کو اللہ نے یہ شرف بخشا کہ آپ کی خواب والی وصیت کو نافذ کیا گیا ۔ اس کے علاوہ اس قسم کا کوئی واقعہ تاریخ میں نہیں ملتا۔ با ادب لوگوں کی تعریف اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے والے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ان الذین یغضون اصواتھم عند رسول اللہ بیشک وہ لوگ جو اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں اولئک الذین امتحن اللہ قلوبھم للتقوی یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے خالص کردیا ہے ۔ جو لوگ نبی کی مجلس میں بیٹھ کر اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں اللہ نے ان کے دلوں میں ادب کی تحم ریزی کی ہے اور ان کو تقویٰ اور طہارت کے لیے خالص بنا دیا ہے۔ لھم مغفرۃ واجر عظیم ان کے لیے بخشش اور اجر عظیم ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ شعائر اللہ میں سے چار اعظم شعائر ہیں یعنی قرآن پاک ، پیغمبر کی ذات ِ مبارکہ ، خانہ کعبہ اور نماز ۔ ان چاروں شعائر کی تعظیم زیادہ ملحوظ رکھنی چاہئے ، چونکہ پیغمبر کی ذات بھی ان اعظم شعائر میں شامل ہے لہٰذا آپ کے ادب کے خلاف کوئی بات نہیں ہونی چاہیے ۔ خلفائے راشدین ؓ اور دیگر صحابہ کرام ؓ نے نبی کے آداب کا بہترین نمونہ پیش کیا ۔ باہر سے آوازیں دینے کی ممانعت ایک دفعہ قبیلہ تمیم کا ایک وفد حضور علیہ الصلوٰۃکی ملاقات کے لیے حاضر ہوا ۔ آپ اس وقت ازواج مطہرات ؓ میں سے کسی ام المومنین ؓ کے کمرے میں آرام فرما رہے تھے۔ جونہی یہ لوگ وہاں پہنچے تو انہوں نے باہر سے آوازیں دینی شروع کردیں یا محمد اخرج الینا یعنی اے محمد ! ﷺ ہمارے پاس باہر تشریف لائیں ، اگلی آیت میں اللہ نے اسی واقعہ پر لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے ارشاد ہوتا ہے ان الذین ینارویک من وراء الحجرات اکثرھم لا یعقلون بیشک وہ لوگ جو آپ کو کمروں کی دیواروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر سمجھ نہیں رکھتے ۔ باہر سے آوازیں دیکر انہوں نے بےعقلی کی بات کی کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت آپ کسی اہم کام میں مصروف ہوں یا آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ آرام فرما رہے ہوں اور فوری طور پر باہر نہ آنا چاہتے ہوں ۔ ایسی حالت میں زور زور سے آوازیں دینا خلاف تہذیب اور بعید از عقل ہے۔ ایک معمولی حیثیت کا آدمی بھی اپنے معمولات میں اس قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرتا چہ جائیکہ نبی کی ذات کو وقت بےوقت زحمت دی جائے اور آپ کے ادب و احترام کا خیال نہ رکھا جائے ۔ اگر ضرور ہی بلانا تھا تو کسی بچے کے ذریعے اندر پیغام بھیجا جاسکتا تھا ، باہر سے آوازیں دینا تو بالکل نا شائستگی کا مظاہرہ تھا۔ اللہ نے فرمایا ولو انھم صبروا حتی تخرج الیھم اور اگر وہ لوگ صبر کرتے حتیٰ کہ حضور ﷺ خود ان کے پاس باہر نکل آتے لکان خیرا ً لھم تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ مطلب یہ کہ ان لوگوں کو چاہئے تھا کہ باہر سے آوازیں دینے کی بجائے حضور ﷺ کے خود باہر تشریف لانے کا انتظار کرتے کہ ادب نبوت کا یہی تقاضا تھا ، یہ چوتھا اصول ہوگیا ۔ ادب و احترام کی مثال امام جلال الدین سیوطی (رح) ، امام قرطبی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ جلیل القدر صحابی اور حضور ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔ حضور ﷺ کی وفات کے بعد آپ ہی کے حکم کے مطابق جب حضرت ابی ابن کعب ؓ کے گھر قرآن سیکھنے کے لیے جاتے تو جا کر آپ کے دروازے پر بیٹھ جاتے یا وہیں کھڑے رہتے۔ آپ نہ تو باہر سے آواز دیتے اور نہ دروازہ کھٹکھٹاتے ۔ پھر جب حضرت ابی ابن کعب ؓ خود گھر سے باہر تشریف لاتے تو ان سے ملاقات ہوتی ایک دفعہ حضرت ابی ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا کہ جب آپ آتے ہیں تو دروازے پر دستک دے دیا کریں ۔ انہوں نے کہا کہ شیخ ، بزرگ یا استاد قوم میں اس طرح ہوتا ہے جس طرح نبی اپنی قوم میں ہوتا ہے۔ اور اللہ کے نبی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر یہ لوگ صبر کرتے حتیٰ کہ نبی (علیہ السلام) خود ان کے پاس نکل کر آتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا ، لہٰذا میں اپنے شیخ کو آواز دے کر یا دروازہ کھٹکھٹا کر تکلیف نہیں دینا چاہتا ، میں تو ادب کی خاطر آ کر بیٹھ جاتا ہوں کہ باہر آئیں گے تو ملاقات ہوجائے گی۔ تمام بزرگان دین نے ادب کو ہمیشہ ملحوظ رکھا ۔ ادب کی وجہ سے ہی فیض حاصل ہوتا ہے ، جیسے فارسی کا مقولہ ہے۔ باادب شو بادب شوبا ادب بے ادب محروم مانداز فضل رب ہمیشہ با ادب رہو کیونکہ بےادب آدمی اللہ کے فضل سے محروم رہتا ہے۔ فرمایا اگر یہ صبر کرتے یہاں تک کہ حضور ﷺ خود باہر تشریف لاتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا ۔ اس تنبیہ کے باوجود اللہ نے مایوس نہیں کیا بلکہ فرمایا واللہ غفور رحیم اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے وہ چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو معاف کردیتا ہے ، لہٰذا محتاط رہیں کہ آئندہ خلاف ادب کوئی حرکت نہ ہو ۔
Top