Mutaliya-e-Quran - Al-Hujuraat : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَرْفَعُوْٓا : نہ اونچی کرو اَصْوَاتَكُمْ : اپنی آوازیں فَوْقَ : اوپر، پر صَوْتِ النَّبِيِّ : نبی کی آواز وَلَا تَجْهَرُوْا : اور نہ زور سے بولو لَهٗ : اس کے سامنے بِالْقَوْلِ : گفتگو میں كَجَهْرِ : جیسے بلند آواز بَعْضِكُمْ : تمہارے بعض (ایک) لِبَعْضٍ : بعض (دوسرے) سے اَنْ : کہیں تَحْبَطَ : اکارت ہوجائیں اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَشْعُرُوْنَ : نہ جانتے (خبر بھی نہ) ہو
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ [اے لوگو ! جو ] اٰمَنُوْا [ایمان لائے ] لَا تَرْفَعُوْٓا [ تم لوگ بلند مت کرو ] اَصْوَاتَكُمْ [ اپنی آوازوں کو ] فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ [ ان نبی کی آواز کے اوپر ] وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ [ اور اونچا مت بولو ان کے لیے بات میں ] كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ [ جیسے تمہارے کسی کا اونچا بولنا ] لِبَعْضٍ [ کسی کے لیے ] اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ [ کہیں اکارت جائیں تمہارے اعمال ] وَ [اس حال میں کہ ] اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ [ تم لوگ شعور نہ رکھتے ہو ] نوٹ۔ 1: آیت ۔ 2:26، نوٹ ۔ 2 میں ہم نے تفسیر حقانی سے فاسق کے تین درجے نقل کیے ہیں اس میں پہلا درجہ یہ ہے کہ آدمی نافرمانی کو برا سمجھتا ہے لیکن بشری تقاضے کے تحت کبھی نافرمانی کا ارتکاب ہوجاتا ہے ۔ اس لحاظ سے ہم نے فاسق کا ترجمہ احتیاط نہ کرنے والے اور فسوق کا ترجمہ غیر محتاط رویوں سے کیا ہے ۔ نوٹ ۔ 2: اس سے پہلی دوسورتوں میں جہاد کے احکام تھے جس سے اصلاح عالم و آفاق مقصود ہے ۔ اس سورت میں اصلاح نفس کے احکام مذکور ہیں ، خصوصا وہ احکام جو آداب معاشرت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ (معارف القرآن ۔ خلاصہ تفسیر سے ماخوذ) یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ قرآن میں احکام و ہدایات کا نزول حالات کے تقاضوں کے تحت ہوا ہے تاکہ لوگوں پر ان کی صحیح قدر و قیمت واضح ہوسکے ۔ چناچہ یہ سورة بھی ایسے حالات میں نازل ہوئی ہے جب نئے نئے اسلام میں داخل ہونے والوں کی طرف سے بعض باتیں ایسی سامنے آئی جن سے ظاہر ہوا کہ یہ لوگ نہ تو رسول کے مقام و مرتبہ سے واقف ہیں اور نہ اسلامی معاشرے میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں ۔ چناچہ اس سورة میں ضروری ہدایات دے دی گئیں جو ضروری تھیں ، ان ہدایات کا تعلق تمام تر نبی ﷺ اور مسلمانوں کے باہمی حقوق سے ہے۔ کفار کا معاملہ اس میں زیر بحث نہیں آیا ۔ (تدبر قرآن ) نوٹ۔ 3: ان آیات میں خطاب اگرچہ عام ہے لیکن جن لوگوں کا رویہ اس سورة میں زیر بحث آیا ہے وہ اطراف مدینہ کے بدوی قبائل ہیں جو اسلام کی ابھرتی ہوئی طاقت سے متاثر ہوکر مسلمانوں میں شامل ہوگئے تھے لیکن یہ لوگ اسلام کو سمجھ کر نہیں بلکہ اس سے مرعوب ہوکر اس میں داخل ہوئے اور مرکز سے بےتعلق رہنے کی وجہ سے ان کی تربیت بھی نہیں ہوئی تھی ، اس لیے ان کے اندر ایک غلط قسم کا پندار تھا کہ انھوں نے کسی جنگ کے بغیر نبی ﷺ کی اطاعت کرلی جو آپ پر ان کا ایک احسان ہے ۔ اس پندار کا اثر یہ تھا کہ ان کا سردار جب مدینہ آتے تو رسول ﷺ سے اس انداز سے بات کرتے گویا وہ اسلام کے بڑے مربی و محسن ہیں ۔ بغیر اس کے کہ کسی معاملہ میں آپ ان کی رائے دریافت کریں آگے بڑھ بڑھ کر خود ہی مشورے دینے کی کوشش کرتے ۔ ان میں ہر ایک آپ کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتا اور اس غرض کے لیے وہ اپنے حریفوں سے متعلق بعض اوقات ایسی خبریں بھی آپ کو پہنچاتے جو غلط فہمی پیدا کرنے والی ہوتیں ، یہ حالات تھے جن میں یہ سورة نازل ہوئی ۔ واضح رہے کہ یہاں رسول ﷺ کو رائے دینے کی ممانعت نہیں ہے ۔ آپ صحابہ سے ان کی رائے معلوم بھی فرماتے اور صحابہ اپنے رائے پیش بھی کرتے تھے۔ یہاں ممانعت اس بات کی ہے کہ کوئی شخص اللہ کے رسول کو مجرد ایک لیڈر سمجھ کر اور اپنے آپ کو ان سے زیادہ مدبر خیال کرکے رسول ﷺ کو اپنی رائے سے متاثر کرنے اور اپنی رائے کو رسول ﷺ کی بات پر مقدم کرنے کی کوشش نہ کرے ۔ اگر کوئی شخص ایسا کرے تو وہ رسول کے مقام و مرتبہ سے بیخبر ہے۔ اللہ کا رسول اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے اللہ کی ہدایت کے تحت کرتا ہے ۔ اگر کوئی ان کی بات پر اپنی بات کو مقدم کرنے کی جسارت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی رائے کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر مقدم کرنا چاہتا ہے ۔ ہمارے زمانے میں یہ تنبیہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اسلام کی خدمت کے دعوے کے ساتھ اسکی اقدار کو مسخ اور اس کے قوانین میں تحریف کررہے ہیں ۔ ان کا گمان یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جس شکل میں اسلام دیا ہے اس شکل میں وہ اس دور میں نہیں چل سکتا ۔ ضروری ہے کہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق اس کی اصلاح کی جائے ایک شخص بہت سے کام اپنی دانست میں دین کے کام سمجھ کر دین ہی کی خدمت کے لیے کرتا ہے لیکن اس کے اندر یہ پندار سمایا ہوا ہو کہ وہ اللہ کے دین پر کوئی احسان کر رہا ہے اور اس زعم میں وہ اللہ کے رسول کے مقام و مرتبہ کا احترام نہ کرے تو اس کے سارے اعمال اکارت ہو کے رہ جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہے ۔ اس کے ہاں شرف قبولیت صرف انہی لوگوں کے اعمال کو حاصل ہوگا جو اس کے دین کی خدمت صرف اس کی رضا کے لیے اور ٹھیک ٹھیک اس کی مقرر کردہ شرائط کے مطابق انجام دیں گے ، اس کے ساتھ ہی دل سے اس حقیقت کا اعترف کرتے رہیں گے کہ یہ خدمت انجام دے کر انھوں نے اللہ و رسول پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ اللہ کا احسان خود ان کے اوپر ہوا ہے کہ اس نے ان کو اپنے دین کی خدمت کی توفیق عطا کی ، (تدبر قرآن) نوٹ۔ 4: آیت ۔ 7 سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام میں کوئی فاسق بھی ہوسکتا ہے اور یہ اس متفق علیہ ضابطہ کے خلاف ہے کہ صحابہ کرام سب کے سب ثقہ ہیں اور ان کی خبر و شہادت پر کوئی گرفت نہیں کی جاسکتی ۔ علامہ آلوسی نے روح المعانی میں فرمایا کہ اس معاملہ میں حق بات وہ ہے جس کی طرف جمہور علماء گئے ہیں کہ صحابہ کرام معصوم نہیں ان سے گناہ کبیرہ بھی سرزد ہوسکتا ہے جو فسق ہے اور اس گناہ کے وقت ان سے وہی معاملہ کیا جائے گا جس کے وہ مستحق ہیں یعنی شرعی سزا دی جائے گی ، اہل سنت والجماعت کا عقیدہ نصوص قرآن وسنت کی بنا پر یہ ہے کہ صحابی سے گناہ تو ہوسکتا ہے مگر کوئی صحابی ایسا نہیں جو گناہ سے توبہ کرکے پاک نہ ہوگیا ہو ، قرآن نے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا فیصلہ صادر فرما دیا ہے ۔ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ (التوبہ ۔ 100) اور رضائے الہی گناہوں کی معافی کے بغیر نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کا اعلان صرف انہی کے لیے فرمایا ہے جن کے متعلق وہ جانتا ہے کہ ان کی وفات موجبات رضا پر ہوگی ۔ (معارف القرآن )
Top