Tafseer-e-Baghwi - Al-Haaqqa : 18
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ یُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ١ؕ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَةِ اللّٰهِ یَكْفُرُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : انہوں نے نہیں دیکھا اَنَّا جَعَلْنَا : کہ ہم نے بنایا حَرَمًا : حرم (سرزمین مکہ) اٰمِنًا : امن کی جگہ وَّ : جبکہ يُتَخَطَّفُ : اچک لیے جاتے ہیں النَّاسُ : لوگ مِنْ : سے (کے) حَوْلِهِمْ ۭ : اس کے ارد گرد اَفَبِالْبَاطِلِ : کیا پس باطل پر يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ : اور اللہ کی نعمت کی يَكْفُرُوْنَ : ناشکری کرتے ہیں
اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آینگے اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اس روز آٹھ فرشتے اٹھائے ہونگے
17 ۔” والملک “ یعنی فرشتے۔ ” علی ارجائھا “ اس کے ارد گرد اور اطراف میں۔ جب تک اس سے نہ پھٹے گا۔ اس کا واحد رجا ہے اور تثنیہ رجوان۔ ضحاک (رح) فرماتے ہیں فرشتے اس کے کناروں پر ہیں حتیٰ کہ ان کو رب تعالیٰ حکم دیں گے پس وہ اتریں گے پھر زمین کو گھیر لیں گے اور جو لوگ زمین پر ہیں۔ ” ویحمل عرش ربک فوقھم “ یعنی ان کے سروں کے اوپر یعنی اٹھانے والے۔” یومئذ “ قیامت کے دن۔ ” ثمانیۃ “ یعنی آٹھ فرشتے۔ حدیث میں آیا ہے کہ وہ آج چار ہیں۔ پس جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ ان کو چار دوسروں کے ساتھ قوت دیں گے تو آٹھ ہوجائیں گے۔ پہاڑی بکرے کی صورت میں ان کے کھروں سے ان کے گھٹنوں کے درمیان کا فاصلہ اتنا ہے جتنا ایک آسمان سے دوسرے آسمان کا اور حدیث میں آیا ہے کہ ان فرشتوں میں سے ہر ایک آدمی کا چہرہ اور شیر کا چہرہ اور بیل کا چہرہ اور گدھ کا چہرہ ہوگا۔ عباس بن عبدالمطلب ؓ فرماتے ہیں ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے بطحاء میں تو ایک بادل گزرا تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ ہم نے کہا بادل۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا اور مزن ہم نے کہا اور مزن آپ (علیہ السلام) نے فرمایا اور عنان تو ہم نے کہا اور عنان تو ہم خاموش ہوگئے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم جانتے ہو آسمان و زمین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا پانچ سو سال کی مسافت۔ اور ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سو سال کی مسافت ہے اور اسی طرح ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو سال ہے اور سات آسمانوں کے اوپر سمندر ہے اس کے اوپر اور نیچے والے حصہ کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جو آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ پھر اس کے اوپر آٹھ پہاڑی بکرے ہیں، ان کے کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے اور اس کے اوپر عرش ہے اور اس کے نچلے اور اوپر والے حصے کے درمیان آسمان و زمین کے درمیان جتنا فاصلہ ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے اوپر ہیں اور اللہ تعالیٰ پر بنی آدم کے اعمال میں سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے اور یہ ابن عباس ؓ سے بھی روایت کی گئی ہے اور ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ ان کے اوپر اس دن آٹھ ہیں یعنی فرشتوں کی آٹھ صفیں ہیں ان کی تعداد کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
Top