Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 112
یَاْتُوْكَ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ
يَاْتُوْكَ : تیرے پاس لے آئیں بِكُلِّ : ہر سٰحِرٍ : جادوگر عَلِيْمٍ : علم والا (ماہر)
کہ تمام ماہر جادوگروں کو آپ کے پاس لے آئیں
112(یاتوک بکل سحر علیم) حمزہ اور کسائی رحمہما اللہ نے یہاں اور سورة یونس میں ” سحار “ پڑھا ہے اور سورة شعراء میں سب کا اتفاق ہے کہ ” سحار “ ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ ساحر سے مراد وہ جو جادو سکیھا ہو لیکن آگے نہ سکھائے اور ” سحار “ جو آگے سکھائے اور عملاً جادو کرے اور بعض نے کہا سحر وہ شخص جس کا جادو کسی کسی وقت چلے اور سحار جس کا جادو دائمی ہو۔ ابن عباس ؓ ابن اسحاق اور سدی رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ فرعون نے جب عصا میں اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھی تو سوچا کہ ہم اس سے اسی وقت غالب ہوسکتے ہیں جب کوئی اس سے زیادہ جادو جاننے والا ہو تو اس نے بنی اسرائیل کے کچھ لڑکے ” غوصائ “ بستی میں اسی وقت غالب ہوسکتے ہیں جب کوئی اس سے زیادہ جادو جاننے والا ہو تو اس نے بنی اسرائیل کے کچھ لڑکے ” غوصائ “ بستی میں بھیجے کہ وہاں ان کو جادو کی تعلیم دی جائے تو وہاں جادوگروں نے ان کو بہت زیادہ جادو سکھایا۔ ادھر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے ایک دن کا وعدہ کرلیا اور جادو گروں کو بلوایا تو وہ لڑکے اور ان کے استاد سب آگئے تو فرعون نے پوچھا تم نے کیا کیا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ان لڑکوں کو ایسا جادو سکھایا ہے کہ زمین کے جادوگر اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ہاں اگر آسمان سے کوئی معاملہ آئے تو یہ اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ پھر فرعون نے اپنی سلطنت کے تمام جادوگر جمع کروائے۔ فرعون کے جادوگروں کی تعداد ان جادوگروں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ مقاتل رحمہ الل ہفرماتے ہیں کہ بہتر تھے دو قبطی اور ستر بنی اسرائیل کے ۔ کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ وہ مجوسی نینویٰ کے رہنے والے معلم تھے اور ا ن کے علاوہ ستر جادوگر تھے اور کعب (رح) فرماتے ہیں کہ بارہ ہزار تھے۔ سدی (رح) فرماتے ہیں کہ تیس ہزار سے زائد تھے اور عکرمہ (رح) فرماتے ہیں کہ ستر ہزار تھے۔ محمد بن منکدر (رح) فرماتے ہیں اسی ہزار تھے۔ مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ ان کے سردار کا نام شمعون تھا اور ابن جریج (رح) فرماتے ہیں کہ جادوگروں کے سردار کا نام یوحنا تھا۔
Top