Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 40
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا١ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى١ؕ وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَا١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ : اگر تم مدد نہ کرو گے اس کی فَقَدْ نَصَرَهُ : تو البتہ اس کی مدد کی ہے اللّٰهُ : اللہ اِذْ : جب اَخْرَجَهُ : اس کو نکالا الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : جو کافر ہوئے (کافر) ثَانِيَ : دوسرا اثْنَيْنِ : دو میں اِذْ هُمَا : جب وہ دونوں فِي : میں الْغَارِ : غار اِذْ : جب يَقُوْلُ : وہ کہتے تھے لِصَاحِبِهٖ : اپنے س ا تھی سے لَا تَحْزَنْ : گھبراؤ نہیں اِنَُّ : یقیناً اللّٰهَ : اللہ مَعَنَا : ہمارے ساتھ فَاَنْزَلَ : تو نازل کی اللّٰهُ : اللہ سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسکین عَلَيْهِ : اس پر وَاَيَّدَهٗ : اس کی مدد کی بِجُنُوْدٍ : ایسے لشکروں سے لَّمْ تَرَوْهَا : جو تم نے نہیں دیکھے وَجَعَلَ : اور کردی كَلِمَةَ : بات الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوا : انہوں نے کفر کیا (کافر) السُّفْلٰى : پست (نیچی) وَكَلِمَةُ اللّٰهِ : اللہ کا کلمہ (بول) ھِىَ : وہ الْعُلْيَا : بالا وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اگر تم پیغمبر ﷺ کی مدد نہ کرو گے تو خدا ان کا مددگار ہے (وہ وقت تم کو یاد ہوگا) جب انکو کافروں نے گھر سے نکال دیا (اس وقت) دو (ہی شخص تھے جن) میں (ایک ابوبکر ؓ تھے) دوسرے (خود رسول اللہ ﷺ جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے اس وقت پیغمبر ﷺ اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے۔ تو خدا نے ان پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور ان کو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تم کو نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کی بات کو پست کردیا۔ اور بات تو خدا ہی کی بلند ہے اور خدا زبردست (اور) حکمت والا ہے۔
40۔” الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ “ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع ہے کہ وہ اپنے رسول ﷺ کی مدد اور اپنے دین کے اعزاز کا خود کفیل ہے چاہے وہ مدد کریں یا نہ کریں کیونکہ اس نے اپنے رسول کی اس وقت مدد کی جب دوست کم اور دشمن زیادہ تھے تو آج تو بطریق اولیٰ ہوسکتی ہے کہ دوستوں کی تعدادبھی زیادہ ہے۔ ” اذا اخرجہ الذین کفروا ثانی اثنین “ یعنی وہ دو میں سے ایک تھے اور دو سے حضر ت ابوبکر صدیق ؓ تھے۔” اذھما فی الغار “ جبل ثور ہیں۔ ” اذ یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا “ شعبی (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے علاوہ تمام زمین والوں کو عتاب کیا ہے۔ جمیع بن عمیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ارشاد فرمایا کہ تو میرا غار میں ساتھی تھا اور حوض پر بھی ساتھی ہوگا ۔ حسین بن فضل (رح) فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ کہے کہ ابوبکر صدیق ؓ رسول اللہ ﷺ کے صحابی نہ تھے تو وہ کافر ہے کیونکہ اس نے نص قرآنی کا انکار کیا اور دیگر تمام صحابہ ؓ کا انکار کرے تو وہ مبتدع ( بدعتی ) ہے کافر نہیں۔ ” لا تحزن ان اللہ معنا “ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا حزن بزدلی کی وجہ سے نہ تھا بلکہ رسول اللہ ﷺ پر شفقت کی وجہ سے تھا اور کہا کہ اگر میں قتل کیا گیا تو ایک آدمی ہوں اور اگر آپ کے ساتھ یہ معاملہ ہوا تو امت ہلاک ہوجائے گی ۔ روایت کیا گیا ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ حضور ﷺ کے ساتھ سفر ہجرت میں تھے تو کبھی آپ (علیہ السلام) کے آگے چلتے کبھی پیچھے تو آپ (علیہ السلام) نے پوچھا کیا ہوگیا ہے اے ابوبکر ؟ تو آپ ؓ نے جواب دیا کہ مجھے پیچھے سے حملہ آور کا خیال آتا ہے تو پیچھے چلتا ہوں اور جب آگے سے کسی کے گھات لگانے کا خیال آتا ہے تو آگے چلتا ہوں ، جب غار میں پہنچے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ یہاں ٹھہریں میں غار کی صفائی کرلوں تو آپ ؓ غار میں داخل ہوئے اور غار کو صاف کیا ، پھر عرض کیا اب آپ آئیں یا رسول اللہ ! تو آپ (علیہ السلام) اندر داخل ہوئے ۔ حضرت عمر ؓ فرماتے تھے کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ابوبکر صدیق ؓ کی وہ رات عمر اور اس کی آل اولاد سے بہتر ہے۔ انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان کو بیان کیا کہ میں نے مشرکین کے قدموں کو دیکھا کہ وہ ہمارے سروں کے اوپر ہیں اور ہم غار میں تھے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر ان میں سے کسی ایک نے اپنے قدموں کے نیچے دیکھا تو ہمیں دیکھ لے گا تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا اے ابوبکر ! تیرا ان دو لوگوں کے با رے میں کیا خیال ہے کہ اللہ ان کا تیسرا ہے۔ عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ جب میں نے ہوش سنبھالا میرے والدین دین اختیار کرچکے تھے اور ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ دن کے صبح شام آپ (علیہ السلام) تشریف نہ لاتے ہوں ۔ جب مکہ میں مسلمانوں پر آزمائش آئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی الہل عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کی غرض سے نکلے۔ جب آپ برک الغماد جگہ پہنچے تو آپ ؓ کو ابن الدغنہ ملا وہ وقارہ کا سردار تھا۔ اس نے پوچھا اے ابوبکر کہاں کی تیاری ہے ؟ تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ مجھے میری قوم نے نکال دیا ہے تو میرا ارادہ ہے کہ زمینی سیاحت کروں اور اپنے رب کی عبادت کروں تو ابن الدغنہ نے کہا بیشک تیری مثل شخص اے ابوبکر نہ نکل سکتا ہے اور نہ نکالا جاسکتا ہے بیشک تومعدوم ( فقیر) کے لیے کماتا ہے اور وصلہ رحمی کرتا ہے اور بوجھ اٹھاتا ہے اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتا ہے اور حق پر مدد کرتا ہے ۔ میں آپ کو پناہ دیتا ہوں ، آپ ؓ واپس جائیں اور اپنے شہر میں جا کر اپنے رب کی عبادت کریں تو آپ ؓ واپس لوٹے اور دین الدغنہ بھی آپ ؓ کے ساتھ آیا اور شام کو تمام اشراف قریش کا چکر لگایا اور ان کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے لیے اوصاف بیان کر کے اپنی پناہ کا کہا تو انہوں نے ابن الدغنہ کی پناہ کا انکار نہیں کیا اور ابن الدغنہ کو کہا کہ ابوبکر کو کہو کہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کریں اور اس میں نماز پڑھیں اور جو چاہے قرأت کریں اعلانیہ یہ کام کر کے ہمیں تکلیف نہ دیں تو ابن الدغنہ نے یہ بات حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو کہی تو کچھ عرصہ اپنے گھر میں عبادت کی اور نہ اعلانیہ نماز پڑھتے اور نہ گھر کے علاوہ قرأت کرتے ۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے گھر کے صحن میں مسجد بنا لی ۔ اس میں نماز پڑھنے اور قرآن کی تلاوت کرتے تو ان پر مشرکین کی عورتیں اور بچے جمگھٹا کردیتے اور ان پر تعجب کرتے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ جب قرآن پڑھتے تو بہت زیادہ روتے تھے تو اشراف قریش اس بات سے گھبراگئے اور ابن الدغنہ کو پیغام بھیجا۔ تو وہ مکہ آیا ، انہوں نے کہا کہ آپ کی پناہ کی وجہ سے ہم نے ابوبکر صدیق ؓ کو کچھ نہیں کہا کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کریں گے لیکن انہوں نے اس سے تجاوز کیا ہے اور اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنا کر اعلانیہ نماز اور قرأت کرتے ہیں ہمیں اپنی عورتوں اور بچوں کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے آپ ان کو روکیں ۔ اگر وہ اس بات کو مان لیتے ہیں کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر میں کریں تو آپ اپنی امان باقی رکھیں ۔ اگر وہ اعلانیہ عبادت کرنا چاہتے ہیں تو ان سے کہو آپ کا ذمہ واپس کردیں کیونکہ آپ کے ذمہ کو خراب کرنا پسند نہیں کرتے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی اعلانیہ عبادت کو بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ ابن الدغنہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ ؓ کو معلوم ہے کہ میں نے آپ کے لیے عقدا مان کیا تھا۔ اگر آپ اس پرکار بند رہتے ہیں تو ٹھیک ورنہ میرا ذمہ واپس کردیں کیونکہ میں یہ پسند نہیں کرتا کہ عرب کہیں کہ میں نے ایک شخص سے عقد کر کے توڑ دیا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ میں تیری پناہ واپس کرتا ہوں اور اللہ کی پناہ میں راضی ہوں ۔ اس وقت نبی کریم ﷺ مکہ میں تھے۔ آپ (علیہ السلام) نے مسلمانوں کو فرمایا کہ میں نے تمہاری ہجرت کا علاقہ دیکھا ہے وہ کھجور کے درختوں والا ہے دو دو سیاہ پتھروں والی وادیوں کے درمیان ہے پھر جن لوگوں نے ہجرت کرنی تھی مدینہ کی طرف ہجرت کی اور حبشہ کے مہاجرین میں سے اکثر مدینہ لوٹ لئے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مدینہ کی طرف کوچ کرنے کی تیاری کی تو آپ ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم ٹھہر جائو ، مجھے امید ہے کہ مجھے بھی ہجرت کی اجازت دی جائے گی تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا آپ (علیہ السلام) کو بھی اس کی امید ہے۔ میرا باپ آپ پر قربان ہو ؟ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں ۔ تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ رسو ل اللہ ﷺ کی رفاقت کے لیے رک گئے اور اپنی دو اونٹنیوں کو چارہ وغیرہ کھلا کر تیار کیا ، چار ماہ ایسا کیا ۔ عروہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ ایک دن ہم ابوبکر صدیق ؓ کے گھر میں چاشت کے وقت بیٹھے تھے کہ کسی نے کہا یہ اللہ کے رسول ﷺ منہ چھپا کر ایسے وقت میں تشریف لا رہے ہیں کہ جس کا معمول نہیں تھا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا کہ میرے ماں اور باپ ان پر فدا ہوں اللہ کی قسم ! اس وقت میں آپ (علیہ السلام) کسی اہم کام کی وجہ سے آئے ہوں گے تو آپ (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا کہ اے ابوبکر ! ( ؓ اپنے پاس سے ہر کسی کو نکال دو تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ( ﷺ) یہ آپ (علیہ السلام) کے گھر والے ہیں تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے نکلنے کی اجازت مل گئی ہے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! (ﷺ) ان دو اونٹنیوں میں سے ایک لے لیں ۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا قیمت کے ساتھ لوں گا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم نے بڑی جلدی ان کی تیاری کرا دی اور ان دونوں کے لیے چمڑے کا ایک توشہ دان تیار کیا تو حضرت اسماء بنت ابی بکر نے اپنے کمر بند ک ایک ٹکڑا کاٹ کر اس کا منہ باندھ دیا ۔ اسی وجہ سے ان کا نام ذات العطاقین پڑگیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ ثورپہاڑپر ایک غار میں چلے گئے اور اس میں تین دن رہے ، رات کو ان کے پاس عبد اللہ بن ابی بکر ؓ جاتے اور دن بھر قریش سے جو باتیں سنتے ان کو یاد کر کے آپ (علیہ السلام) کو سناتے اور صبح منہ اندھیرے وہاں سے واپس آجاتے اور صبح کو قریش میں پھرتے رہتے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے غلام عامر بن فھیرۃ بکریاں چراتے ہوئے رات کو وہاں پہنچ جاتے اور دودھ پلاتے اور صبح سے پہلے وہاں سے ریوڑ لے کر چلے جاتے ۔ یہ معاملہ تینوں راتوں میں رہا ۔ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بنی ویل کے ایک شخص کو راستہ دکھانے کے لیے اجرت پر لیا ہوا تھا یہ شخص کفار مکہ کے دین پر تھا تو انہوں نے اپنی اونٹنیاں اس کو دے دیں کہ وہ تین راتوں کے بعد صبح کے وقت اونٹنیاں لے کر آجائے گا۔ سراقہ کا قصہ شیخین نے صحیحین میں نیز امام احمد نے سراقہ کی روایت سے اور امام احمد و یعقوب بن سفیان نے حضرت ابوبکر کے حوالے سے بیان کیا ۔ سراقہ کا بیان ہے کفار قریش کے قاصد ہمارے پاس آئے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر کے قتل یا گرفتار کرنے والے کیلئے ایک انعام مقرر کیا اور کہا کہ دونوں میں جس کسی کو کوئی قتل یا گرفتار کرے گا ۔ اس کو سو اونٹیاں دی جائیں گی ۔ میں اپنی قوم بنی مدلج کے ساتھ ایک جلسہ میں بیٹھا ہوام تھا کہ ایک آدمی آ کر کھڑا ہوا اور اس نے کہا : سراقہ ! میں نے ابھی ساحل پر کچھ اشخاص دیکھے ہیں ۔ دوسری روایت میں ہے کہ تین سوار دیکھے ہیں میرے خیال میں وہ محمد اور ان کے ساتھی تھے۔ یہ سنتے ہی میں پہچان گیا کہ ہوں نہ ہوں وہی ہوں گے۔ میں نے اس شخص کو اشارہ کیا کہ خاموش رہو۔ وہ خاموش ہوگیا ۔ میں اٹھ کر گھر میں گیا اور باندی کو حکم دیا کہ میرا گھوڑے لے کر بطن وادی میں پہنچا دے اور خود اپنے خیمہ کے پیچھے سے ہتھیار لے کر نکل چلا اور نیزہ کو گھسیٹتا گیا ۔ بلم کا بالائی حصہ کو نیچے کو دیا ۔ اس طرح گھوڑے تک پہنچا اور سوارہو کر تیز دوڑتا ہوا چل دیا ۔ یہاں تک کہ میری دونوں اشخاص پر نظر پڑگئی ۔ قریب پہنچا ہی تھا کہ گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں نیچے گرپڑا ۔ پھر میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور ترکش کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس میں سے فال لینے کیلئے تیر نکالے کہ میں ان کو نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں ۔ فال لینے پر تیر وہی نکلا جو مجھے پسند نہ تھا۔ یعنی فال یہ نکلی کہ میں ان کو ضرر نہ پہنچاسکوں گا ۔ مگر مجھے امید تھی کہ میں اس فال کو الٹ دوں گا اور سو اونٹنیاں لے لوں گا ۔ چناچہ میں پھر گھوڑے پر سوارہو گیا اور تیروں کی فال مانی اور گھوڑے کو تیز دوڑتا چلاتا کہ وہ مجھے قریب پہنچا دے۔ میں اتنا قریب پہنچ گیا کہ رسول اللہ ﷺ کے قرآن پڑھنے کی آواز میں نے سن لی ۔ آپ کی توجہ میری طرف یہ تھی مگر حضرت ابوبکر میری طرف زیادہ متوجہ تھے۔ اسی حالت میں اچانک میرے گھوڑے کے دونوں پائوں گھنٹوں تک زمین میں دھنس گئے اور میں نیچے گرپڑا ۔ میں نے گھوڑے کو جھڑکا ا اور خود اٹھا مگر گھوڑا پائوں باہر نہ نکال سکا ۔ گھوڑے نے کوشش کی کہ قدم باہرنکال لے ۔ اس کوشش میں دھویں کی طرح غبار اٹھ کر اوپر چڑھ گیا ۔ میں نے پھر تیروں سے فال نکالی مگر وہی فال نکلی کہ میں ان کو ضرر نہ پہنچا سکو گا ۔ آخر میں جان گیا کہ رسول اللہ ﷺ مجھ سے محفوظ کردیئے گئے ہیں اور وہ غالب آئیں گے ۔ مجبوراً میں نے امان کیلئے پکارا اور کہا دیکھو ! میری کیا حالت ؟ میں خدا کی قسم ! ہرگز تم کو کوء یاذیت نہیں پہنچائوں گا اور میری طرف سے تمہارے لئے کوئی ناخوشگوار حرکت نہ ہوگی ۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ سے فرمایا : اس سے پوچھو کہ کیا چاہتا ہے ؟ میں نے کہا آپ کی قوم نے آپ کے سلسلہ میں انعام مقرر کیا ہے ۔ غرض لوگوں کا جو مقصد تھا میں نے اس کی اطلاع آپ کو دے دی ۔ کچھ زاد راہ اور سامان کی بھی پیشکش کی مگر آپ نے مجھے کوئی تکلیف نہ دی نہ کچھ مانگا ۔ صرف اتنا فرمایا کہ ہماری خبر ظاہر نہ کرنا۔ میں نے درخواست کی کہ ( آئندہ کیلئے) مجھے کوئی پروانہ امن کیلئے لکھ دیجئے۔ آپ نے حکم دیا : ابوبکر ! اس کو لکھ دو ۔ ” فانز ل اللہ سکینتہ علیہ “ بعض نے کہا نبی کریم ﷺ پر اور ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ پر کیونکہ نبی کریم ﷺ پہلے سے سکنیت پر تھے۔” وایدہ بجنودلم تروھا ‘ ‘ یہ وہ فرشتے تھے جو کافروں کے چہرے اور نگاہیں پھیرنے کے لیے اترے تھے اور بعض نے کہا کفار کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ واپس لوٹ گئے۔ مجاہد اور کلبی رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ بدر کے دن فرشتوں کے ساتھ مدد کی اور یہ خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کی تدبیر آپ (علیہ السلام) سے غار میں پھیری ۔ پھر اپنی مدد کو فرشتوں کے ذریعے بدر میں ظاہر کیا ۔ ” وجعل کلمۃ الذین کفروا السفلی “ اور ان کا کلمہ شرک یہی قیامت تک نیچا ہے۔” وکلمۃ اللہھی العلیا “ قیامت کے دن تک ، ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ” لا الہ الا اللہ “ مراد ہے اور بعض نے کہا ہے ” کلمۃ الذین کفروا “ جو انہوں نے آپ میں نبی کریم ﷺ کو قتل کرنے کے لیے تدبیر کی تھی اور ” کلمۃ اللہ “ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ وہ ان کی مدد کریں گے اور یعقوب (رح) نے ” وکلمۃ اللہ “ تاء کے زبر کے ساتھ اس بناء پر پڑھا ہے کہ اس کا ” جعل “ کے پہلے مفعول ” کلمۃ الذین کفروا “ پر عطف ہے اور اصل عبارت ” وجعل کلمۃ الذین کفروا السفلی ، وجعل کلمۃ اللہھی العلیا “ ہے ۔ تو ’ کلمۃ اللہ “ پہلے کا مفعول پر معطوف ہے اور ” العلیا “ دوسرے مفعول ہے اور باقی حضرات نے ” کلمۃ اللہ “ پیش کے ساتھ پڑھا ہے۔ استئناف کی بناء پر گویا کہ کلام باری تعالیٰ کے قول ” وجعلوا کلمۃ الذین کفروا السفلی “ پر مکمل ہوگئی تھی ۔ پھر ابتداء کی اور فرمایا ” وکلمۃ اللہھی العلیا “ مبتداء اور خبر ہے کلمۃ اللہ مبتداء اور العلیا اس کی خبر ہے۔ ” واللہ عزیز حکیم “ تفسیر : وما کان المومنون سدی (رح) فرماتے ہیں ک جب یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں پر اس کی وجہ سے بڑی سختی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو منسوخ کردیا اور فرمایا ” لیس علی الضعفاء ولا علی المرضی “ پھر ان منافقین کے بارے میں آیت نازل کی جو غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ گئے۔
Top