Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 7
كَیْفَ یَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِیْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
كَيْفَ : کیونکر يَكُوْنُ : ہو لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے عَهْدٌ : عہد عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس وَعِنْدَ رَسُوْلِهٖٓ : اس کے رسول کے پاس اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو عٰهَدْتُّمْ : تم نے عہد کیا عِنْدَ : پاس الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام فَمَا : سو جب تک اسْتَقَامُوْا : وہ قائم رہیں لَكُمْ : تمہارے لیے فَاسْتَقِيْمُوْا : تو تم قائم رہو لَهُمْ : ان کے لیے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
بھلا مشرکوں کے لئے (جنہوں نے عہد توڑ ڈالا) خدا اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک عہد کیونکر (قائم) رہ سکتا ہے ؟ ہاں جن لوگوں کے ساتھ تم نے مسجد محترم (یعنی خانہ کعبہ) کے نزدیک عہد کیا ہے اگر وہ (اپنے عہد پر) قائم رہیں تو تم بھی اپنے قول وقرار (پر) قائم رہو۔ بیشک خدا پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔
كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعِنْدَ رَسُوْلِهٖٓ یہ سوال تعجب کے کے طریقے پر ہے اور اس کا مطلب انکار کرنا ہے یعنی یہ لوگ دھوکہ دیتے ہیں اور عہد توڑتے ہیں تو ان کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر کوئی عہد نہیں ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے استثناء کیا اور فرمایا ” الا الذین عھدتم عند المسجد الحرام “ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ قریش ہیں اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ اہل مکہ ہیں جن سے رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے دن معاہدہ کیا تھا ” فما استقاموا لکم فاستقیموا لھم “ پھر وہ سیدھے نہیں رہے اور عہد کو توڑا اور بنی بکر کی خزاعہ پر حملہ میں مدد کی تو فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے چار ماہ مدت مقرر کردی کہ ان چار ماہ میں اسلام لے آئیں یا جس شہر میں چاہیں چلے جائیں تو وہ چار ماہ سے پہلے اسلام لے آئے۔ سدی ، کلبی اور ابن اسحاق رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے بکر کے قبیلے بنو خزیمہ، بنو مدلج اور بنو ضمرہ اور بنود یل مراد ہیں یہ لوگ حدیبیہ کے دن قریش کے عہد میں داخل ہوگئے تھے ان میں سے قریش اور بنو بکر کی شاخ بنو دیل نے عہد شکنی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے عہد پورا کرنے کا حکم دیا جنہوں نے عہد نہیں توڑا یعنی بنو ضمرہ ۔ یہ قول درستگی کے زیادہ قریب ہے۔ اس لئے کہ یہ آیت قریش کے عہد توڑنے اور فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہے تو ایک گزر جانے والے اقعہ کے بارے میں کیسے مستقبل کا حکم لگایا جاسکتا ہے ؟ کہ ” فما استقاموا لکم فاستقیموا الھم “ اور یہ تو وہ لوگ مراد ہیں جن کے بارے میں کہا ” الا الذین عاھدتم من المشرکین ثم لم ینقصو کم شیئاً “ یعنی وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے قریش کی طرح عہد شکنی نہیں کی اور رسول اللہ ﷺ کے خلفاء یعنی بنی خزاعہ کے خلاف بن بکر کی مدد نہیں کی۔” ان اللہ یحب المتقین “
Top