Baseerat-e-Quran - Hud : 50
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : قوم عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارا نہیں مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنْ : نہیں اَنْتُمْ : تم اِلَّا : مگر (صرف) مُفْتَرُوْنَ : جھوٹ باندھتے ہو
اور ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ھود کو بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ اے میری قوم تم اس اللہ کی عبادت و بندگی کرو جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ تم نے (اپنی طرف سے) محض جھوٹ گھڑ رکھے ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 50 تا 57 اخا (اخ) بھائی مالکم (تمہارے لئے نہیں ہے) مفترون (گھڑنے والے) لا اسئل (میں نہیں مانگتا، میں سوال نہیں کرتا) اجر (اجرت، بدلہ، معاوضہ) فطرنی (جس نے مجھے پیدا کیا) استغفروا (تم معافی مانگو) یرسل (وہ بھیجے گا) مدرار (مسلسل برسنا، برسانا، بارشیں) ماجئتنا (تو نہیں ، (تو نہیں لایا) تاریکی (تارکین) ، چھوڑنے والے اعترک ت (تجھے مبتلا کردیا، پھنسا دیا) سوء (برائی، تکلیف، بیماری) اشھد (میں گواہ کرتا ہوں) بری (بیزاری، نفرت) من دونہ (اس کو چھوڑ کر) کیدونی (تم تدبیر کرو میرے خلاف) لا تنظرون (تم مجھے مہلت نہ دو ، موقع نہ دو ) توکلت (میں نے بھروسہ کرلیا، بھروسہ کر رکھا ہے) دابۃ (زمین پر چلنے والا جان دار اخذ (پکڑنے والا) ناصیۃ (پیشانی، چوٹی) ابلغت (میں نے پہنچا دیا) ارسلت (میں بھیجا گیا ہوں) یستخلف (وہ قائم مقام بنا دے گا) غیرکم (تمہارے علاوہ لاتضرون (تم بگاڑ نہ سکو گے) حفیظ (حفاظت کرنے والا، نگہبان) تشریح : آیت نمبر 50 تا 57 قرآن کریم سچائی کا وہ پیغام ہے جس کے اپنانے میں کامیابی اور اس کا کفر و انکار دین و دنیا کی تباہی ہے۔ قرآن کریم میں گزشتہ انبیاء کرام کے واقعات کو نہایت اختصار سے پیش کیا گیا ہے تاکہ عبرت و نصیحت کے تمام پہلو سامنے آسکیں۔ حضرت نوح کے عبرت انگیز واقعہ کو نہایت مختصر انداز سے سامنے رکھ کر یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت نوح نے ساڑھے نو سو سال تک اللہ کے دین کی سچائی اور توحید کے پیغام کو ملت کے ہر فرد کے سامنے خلوص اور بےغرضی سے پیش کیا۔ جن لوگوں نے اطاعت و فرماں برداری کا طریقہ اختیار کیا وہ کشتی نوح میں محفوظ رہے لیکن جن لوگوں کو اپنی دولت، بلند عمارتوں اور تہذیب و ترقی پر ناز تھا جب اللہ کا فیصلہ آگیا اور زمین و آسمان سے پانی کا طوفان آیا تو پہاڑ کی چوٹیوں پر چڑھ جانے والے بھی اپنے آپ کو نہ بچا سکے۔ قرآن کریم اسی بات کو ذہنوں میں تازہ کرنے کے لئے اپنے پغمبروں کے واقعات کو پیش کر کے عبرت و نصیحت کے ہر پہلو کو نمایاں کرتا ہے کیوں کہ سنبھل جانے کا ایک وقت ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم سنبھل نہ کسی تو پھر وہ تاریخ انسانی میں ایک عبرت کا نشان بن جایا کرتی ہے۔ حضرت نوح کے بعد عاد ابن ارم کی نسل سے قوم عاد ایک زبردست قوم بن کر ابھری، وہ اپنی دنیاوی ترقیات، مال و دولت اور تجارت کی کثرت ، بلند وبالا عمارتوں اور سرسبز و شاداب علاقوں کی وجہ سے ساری دنیا کے ذہن و فکر پر چھا گئی اور کم و بیش ایک ہزار سال تک دنیا پر حکمرانی کرتی رہی۔ لیکن ایک مورخ اس بات پر حیران و پریشان ہوجاتا ہے کہ جس طرح یہ قوم ابھر کر ساری دنیا کے ذہنوں پر چھا گئی تھی اسی طرح جب وہ مٹنے پر آئی تو دنیا سے اس کا وجود اس طرح ختم ہوگیا کہ آج اس قوم کے آثار، نشانات اور کھنڈرات بھی مشکل سے ملتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کی اتنی ترقی یافتہ قوم اس طرح تاریخ میں عبرت کا نشان کیوں بن گئی ؟ وہ کونسی دیمک تھی جو اس قوم کی ترقیات کو چاٹ گئی ۔ قرآن کریم کی یہ آیات اس سوال کا بہترین جواب ہیں۔ سورة ہود میں اللہ تعالیٰ نے سات انبیاء کرام کی زندگی کو مختصر انداز سے بین کر کے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ : 1) جن لوگوں نے انبیاء کرام کی تعلیمات کو اپنایا اور اللہ کے رسولوں کی اطاعت و فرماں برداری کی وہ قومیں کامیاب ہوگئیں لیکن جن کو دنیا کی دولت، ترقی اور بلند وبالا عمارتوں پر ناز تھا اور انہوں نے انبیاء کرام کی بات کو تسلیم نہیں کیا وہ اس طرح دنان سے مٹ گئیں کہ آج ان کا کوئی نام لیوا تک موجود نہیں ہے۔ 2) قوموں کی تہذیب و ترقی کو چاٹ جانے والی دوسری چیز کسی قوم کا بےجا گھمنڈ، غرور وتکبر اور کمزوروں پر ظلم و ستم ہے۔ اگر کسی کے دماغ میں دولتا ور اقتدار کا نشہ اس طرح چھا جائے کہ وہ کمزور افراد اور مجبور قوموں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگے اور کسی ظلم و ستم کرنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ کرے تو یہ غرور تکبر افراد اور قوموں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ 3) قوموں کے گرنے کا ایک سبب یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ وہ ایک اللہ کی عبادت و بندگی کے بجائے اپنے خیال اور گمان سے پتھروں کے بت بنا کر ان کو معبود کا درجہ دیدیتے ہیں اور انسانی مجسموں کو ابتداء میں عقیدت و محبت کا درجہ دیتے ہیں اور پھر ان کو اپنا معبود بنا لیتے ہیں۔ 4) چوتھا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کا وسیلہ اختیار کرنے لگ جاتے ہیں اور پتھروں کے بےجان بتوں اور مٹی کے ڈھیروں سے اپنی مرادیں مانگنے لگتے ہیں۔ یوں تو اور بھی اسباب ہیں جن سے قومیں برباد ہوتی ہیں لیکن اس موقع پر ان چند اسباب کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ قوم عاد کی بربادی میں سب سے بڑے اسباب یہی تھے کہ انبیاء کرام کی تعلیمات سے انکار، غرور وتکبر، کمزوروں پر ظلم و ستم، انسانی مجسموں کو معبود کا مقام دینا اور ان کے وسیلے سے اپنی حاجتوں کو مانگنا۔ حضرت ھود نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے توحید کا یہ پیغام پوری قوم تک پہنچایا اور ان کو بتایا کہ اے لوگو ! تم نے جن بےجان پتھروں کے بتوں کو اپنا معبود سمجھ رکھا ہے وہ ایک بہت بڑا دھوکہ اور فریب ہے۔ حقیقی معبود صرف ایک اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے یہ بت قصے، کہانیوں اور افسانوں سے زیادہ کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ تم صرف اسی ایک اللہ کی بندگی کرو جس نے تم سب کو پیدا کیا ہے۔ حضرت ھود نے فرمایا کہ لوگو ! تم یہ مت سمجھنا کہ یہ سب کچھ کہنے سے میں تم سے کسی دولت یا دنیاوی عزت کا طالب ہوں بلکہ میں صاف اعلان کرتا ہوں کہ میرا اجر وثواب اللہ کے ذمے ہے میرا بھروسہ صرف اسی ذات پر ہے جو ہم سب کا معبود ہے۔ تم جن گناہوں میں مبتلا ہو ان سے معافی مانگو تاکہ خشک سالی جو تمہاری طرف بڑھتی چلی آرہی ہے وہ تمہیں اور تمہاری طاقت و قوت کو تباہ وبرباد کر کے نہ رکھ دے۔ اگر تم نے توبہ و استغفار کیا تو اللہ نہ صرف تمہارے گناہوں خطاؤں کو معاف کر دے گا بلکہ تمہاری قوت و طاقت میں اور بھی اضافہ فرما دے گا۔ اگر تم نے اللہ کی نافرمانی کو اپنا رکھا تو تم مجرم قوموں میں شامل ہو کر برے انجام سے دوچار ہو جائو گے۔ حضرت ہود نہایت خلوص، محبت، متانت و سنجیدگی سے اس پیغام کو ایک ایک گھر تک پہنچا رہے تھے مگر وہ بدقسمت قوم حضرت ہود کے اس پیغام توحید کو نہ سمجھ کسی اور کہنے لگی کہ اے ہود ہم تمہارے کہہ دینے سے ان معبودوں کو تو نہیں چھوڑ سکتے جو ہمارا سہارا ہیں جب کہ تمہارے ساتھ کوئی ایسا معجزہ بھی نہیں ہے جس کو دیکھ کر ہم اس بات کا یقین کرلیں کہ واقعی تم جو بات کہہ رہے ہو وہ سچ ہے۔ کہنے لگے کہ ہم تو یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اے ھود ! تم جو رات دن اٹھتے بیٹھتے ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہو کوئی معبود تم سے ناراض ہوگیا ہے اور اس نے تمہارے دل و دماغ پر ایسا برا اثر ڈالا ہے کہ تم بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو۔ حضرت ہود کا نہایت سادگی، متانت اور سنجیدگی کے ساتھ یہی پیغمبرانہ جواب تھا کہ اے میری قوم ! میں نے جو کچھ کہا ہے اس پر میں اللہ کی گواہی پیش کرتا ہوں وہی میرا گواہ ہے البتہ میں تمہارے کفر و شرک کے ہر انداز سے بیزار ہوں اور میں وہی سچی بات کہوں گا جس کا مجھے اللہ نے حکم دیا ہے۔ اگر تم میری بات نہیں مانتے اور تمہیں میری باتوں کا یقین نہیں ہے تو تم سب مل کر میرے خلاف جو کچھ کرسکتے ہو کر ڈالو اور مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو ۔ میرا بھروسہ تو اس ذات بےنیاز پر ہے جو تمہارے اور میرا رب ہے اور ہر چیز اس کے اس طرح قبضے میں ہے کہ اس نے ہر چیز کو اس کی چوٹی سے پکڑ کر اور تھام کر رکھا ہے۔ اس پروردگار کا راستہ ہی صراط مستقیم ہے فرمایا کہ اے میری قوم ! میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم اس راستے کو اپناتے ہو یا نہیں۔ بہرحال اتنی بات تمہیں بتا دیتا ہوں کہ اگر تم نے اس صراط مستقیم کو نہیں اپنایا اور اسی طرح غیر اللہ کی عبادت و بندگی کرتے رہے تو دوسری قوموں کی طرح تمہیں بھی حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے گا۔ وہ اللہ جو کسی کا محتاج نہیں ہے تمہیں مٹا کر کسی دوسری قوم کو تمہاری جگہ پر لا کر آباد کر دے گا۔ تم اللہ کا تو کچھ نہ بگاڑ سکو گے کیونکہ وہ ہر چیز کا محافظ و نگراں ہے۔ البتہ تم اپنے لئے وہ خرابی ضرور پیدا کرلو گے جس کا کوئی علاج نہیں ہے اور تم اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکو گے۔ آپ اس کے بعد کی آیات میں ملاحظہ فرمائیں گے کہ اللہ نے قوم عاد کو کس طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور دوسری قوم کو ان کا قائم مقام بنا دیا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ قوم عاد جو دنیا کی عظیم قوموں میں سے ایک قوم تھی کس طرح اس کو اس کے برے اعمال کے سبب تباہ و برباد کر کے رکھ دیا گیا۔ یہی تمام اخلاق کمزوریاں تم مکہ والوں کے اندر بھی موجود ہیں اگر تم نے اپنے گناہوں سے توبہ نہ کی تو تمہارا حشر بھی قوم عاد سے مختلف نہ ہوگا۔
Top