Baseerat-e-Quran - An-Naml : 67
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّ اٰبَآؤُنَاۤ اَئِنَّا لَمُخْرَجُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) ءَاِذَا : کیا جب كُنَّا : ہم ہوجائیں گے تُرٰبًا : مٹی وَّاٰبَآؤُنَآ : اور ہمارے باپ دادا اَئِنَّا : کیا ہم لَمُخْرَجُوْنَ : نکالے جائیں گے البتہ
اور کافروں نے کہا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم (قبروں سے) نکالے جائیں گے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 67 تا 82 : تراب (مٹی) مخرجون (نکالے گئے ۔ نکلنے والے) ‘ وعدنا (ہم سے وعدہ کیا گیا) ‘ اساطیر (کہانیاں۔ قصے) سیروا (تم چلو پھرو) لاتحزن (رنجیدہ نہ ہو) ضیق (تنگ ہونا۔ دل تنگ ہونا) ‘ ردف (قریب۔ پیچھے) ماتکن (جو چھپائی گئی ہے۔ جو چھپی ہے) ‘ یقص (وہ بیان کرتا ہے) ‘ یقضی (وہ فیصلہ کرتا ہے) لاتسمع (تو نہیں سنا سکتا) ‘ وقع (پورا ہوا۔ واقع ہوا) ‘ دابۃ ( جان دار۔ جانور) یوقنون (وہ یقین کرتے ہیں) تشریح : آیت نمبر 67 تا 82 : کفار و مشرکین کہتے تھے کہ جب ہم مرنے کے بعد مٹی ہوجائیں گے یعنی ہمارے وجود کے ذرے بھی بکھر جائیں گے اور خاص طور پر ہمارے باپ دادا جن کو مرے ہوئے ایک طویل عرصہ گذر گیا ہے وہ دوبارہ کیسے زندہ کئے جائیں گے ؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ وہی باتیں ہیں جنہیں ہم اور ہمارے باپ دادا سنتے چلے آرہے ہیں اگر اس بات میں کوئی وزن ہوتا تو آخر اس دنیا سے جانے والا کوئی ایک آدمی تو آکر بتاتا کہ یہ سب کچھ ممکن ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کو کفار و مشرکین کہتے چلے آئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مرتبہ کفار کے ان جملوں کو نقل کرکے جواب دیا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ عالم برزخ سے تو کوئی آکر وہاں کی کیفیات بیان نہیں کرسکتا البتہ اللہ و رسول کی نافرمانی کرنے والے مجرموں کی بنائی ہوئی عمارتیں اور ان کے کھنڈرات کو جا کر دیکھیں کہ وہ خود اس بات کے گواہ ہیں کہ اللہ ایسے مجرموں کو جڑ و بنیاد سے کھود ڈالتا ہے اور ان کی بلند وبالا عمارت اور مال و دولت کی کثرت انہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتیں۔ کیونکہ وہ بھی یہی کہتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے کہ ہم مرنے کے بعد دوبارہہ زندگی پر یقین نہیں رکھتے۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ جس نے انسان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہ ان کو دوبارہ زندہ کیوں نہیں کرسکتا۔ نبی کریم ﷺ سے فرمایا جارہا ہے کہ آپ اپنے مشن اور مقصد کو پھیلاتے رہیے اور ان کفار کے اعتراضات اور دشمنی کی نہ تو پروا کیجئے اور نہ آپ کسی طرح کا رنج اور افسوس کیجئے۔ کیونکہ وہ دن بہت دور نہیں ہے جب اللہ تعالیٰ اس دنیا کو ختم کر کے ایک نئی دنیا بنائے گا اور پھر ہر شخص سے اس کے کئے ہوئے اعمال کا حساب لے گا۔ یہ وعدہ الہٰی کب پورا ہوگا اس کا علم تو اللہ کو ہے البتہ ایسا لگتا ہے کہ اب اس وعدے کے پورا ہوے کا وقت بہت دور نہیں ہے بلکہ قریب آگیا ہے۔ ان آیات میں دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ یہ قرآن کریم ایک ایسی معیاری کتاب ہے جو اس سے پہلے نازل کی جانے والی کتابوں کے لئے کسوٹی کا درجہ رکھتی ہے یعنی بنی اسرائیل جنہوں نے اپنی کتابوں میں اپنی طرف سے اتنی جھوٹی باتوں کو گھڑ لیا تھا جس سے ان کی کتابیں تضاد اور اختلاف کا نمونہ بن کر رہ گئی ہیں لیکن قرآن کریم نے ان تمام اختلافات کو دور کر کے انسچائیوں کو بیان کیا ہے جو اصل حقائق ہیں۔ قرآن کریم اہل ایمان کے لئے ہدایت و رہنمائی اور رحمت کا سبب ہے۔ اگر قرآن کریم کی آیات نازل نہ ہوتیں تو ان بنی اسرائیل کی من گھڑت باتوں سے ساری دنیا گمراہ ہو کر رہ جاتی۔ قرآن کریم نے ہر سچائی کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ سے فرمایا جارہا ہے کہ آپ ان کی پرواہ نہ کیجئے کیونکہ ان کے اختلافات کی قلعی تو اللہ نے کھول کر رکھ دی ہے وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے اور آپ کھلی ہوئی سچائی پر ہیں۔ یقیناً وہ لوگ جو آنکھیں رکھنے کے باوجود اندھے بنے ہوئے ہیں ان کو آپ راہ ہدایت دکھا نہیں سکتے۔ البتہ آپ اپنی کوشش کرتے رہیے۔ قیامت کب آئے گی اس کا تعین تو نہیں کیا گیا البتہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے قریب زمانہ میں دجال کا خروج ابتہ الارض کا ظہور ‘ دخان (دھواں) اور سورج کا مغرب سے نکلنا جب یہ سب علامتیں پوری ہوجائیں تو سمجھ لینا کہ قیامت بہت قریب ہے۔ دابتہ الارض زمین سے پیدا ہونے والا ایک خوفناک جانور ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوگوں سے باتیں کرے گا اور جو لوگ قیامت کا یقین نہ کرنے والے ہوں گے ان کو یقین آجائے گا۔ لیکن اس وقت کا یقین اور ایمان قبول نہیں کیا جائے گا
Top