Maarif-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 31
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَیُّهَ الثَّقَلٰنِۚ
سَنَفْرُغُ لَكُمْ : عنقریب ہم فارغ ہوجائیں گے تمہارے لیے اَيُّهَا الثَّقَلٰنِ : اے دو بوجھو
ہم جلد فارغ ہونے والے ہیں تمہاری طرف اے دو بھاری قافلو !
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَيُّهَا الثَّقَلٰنِ ، ثقلان ثقل کا تثنیہ ہے جس کے معنی وزن اور بوجھ کے ہیں، ثقلان دو بوجھ، مراد اس سے انسان اور جنات ہیں، لفظ ثقل عربی زبان میں ہر ایسی چیز کے لئے بولا جاتا ہے جس کا وزن اور قدر و قیمت معروف ہو، اسی لئے حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے، انی تارک فیکم الثقلین الخ یعنی میں اپنے بعد دو وزن دار قابل قدر چیزیں چھوڑتا ہوں، جو تمہاری ہدایت و اصلاح کا کام دیتی رہیں گی، ان دونوں چیزوں کا بیان بعض روایات میں کتاب اللہ و عترتی آیا ہے، بعض میں کتاب اللہ و سنتی اور حاصل دونوں کا ایک ہی ہے کیونکہ عترت سے مراد اپنی اولاد ہے جس میں نسبی اور روحانی دونوں قسم کی اولاد شامل ہے، اس لئے مراد سب صحابہ کرام ہوئے اور معنی حدیث کے یہ ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد دو چیزیں مسلمانوں کی ہدایت و اصلاح کا ذریعہ ہوں گی، ایک اللہ کی کتاب دوسرے آپ کے صحابہ کرام اور معاملات و احکام میں ان کا تعامل اور جس روایت میں عترت کی جگہ سنت آیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات جو صحابہ کرام کے واسطے سے مسلمانوں کو پہنچی ہیں۔
بہر حال اس حدیث میں ثقلین سے مراد دو وزن دار قابل قدر چیزیں ہیں، آیت مذکورہ میں جن وانس کی دونوں نوعوں کو ثقلین اسی مفہوم کے اعتبار سے کہا گیا ہے کہ زمین پر بسنے رہنے والی سب ذی روح چیزوں میں جن وانس سب سے زیادہ وزن دار اور قابل قدر ہیں اور سنفرغ، فراغ سے مشتق ہے، جس کے معنی کسی شغل سے فارغ اور خالی ہونے کے ہیں، فراغ کا مقابل لغت میں شغل ہے اور لفظ فراغ دو چیزوں کی خبر دیتا ہے اول یہ کہ کسی شغل میں مشغول تھا، دوسرے یہ کہ اب اس شغل کو ختم کر کے فارغ ہوگیا، یہ دونوں باتیں مخلوقات میں تو معروف و مشہور ہیں، انسان کبھی ایک شغل میں لگا ہوا ہوتا ہے پھر اس سے فارغ ہوجاتا ہے مگر حق تعالیٰ جل شانہ ان دونوں سے بری ہیں، نہ ان کو ایک شغل دوسرے شغل سے مانع ہوتا ہے نہ وہ کبھی اس طرح فارغ ہوتے ہیں جس طرح انسان فارغ ہوا کرتا ہے۔
اس لئے آیت مذکورہ میں سنفرغ کا لفظ ایک تشبیہ و استعارہ کے طور پر لایا گیا ہے جو عام انسانوں میں رائج ہے کہ کسی کام کی اہمیت بتلانے کے لئے کہا جاتا ہے کہ ہم اس کام کے لئے فارغ ہوگئے یعنی اب پوری توجہ اسی کام پر ہے اور جو آدمی کسی کام پر اپنی پوری توجہ خرچ کرتا ہے اس کے لئے محاورہ میں کہا جاتا ہے کہ اس کو تو اس کے سوا کوئی کام نہیں۔
اس سے پہلی آیت میں جو یہ مذکور تھا کہ آسمان و زمین کی ساری مخلوقات اور ان کا ایک ایک فرد حق تعالیٰ سے اپنی حاجات مانگتا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر وقت ہر حال میں ان کی درخواست پورا کرنے کے لحاظ سے ایک خاص شان میں ہوتے ہیں، آیت سنفرغ لکم الخ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ قیامت کے روز درخواستوں اور ان کے قبول اور ان پر عمل کا سب سلسلہ بند ہوجائے گا اس وقت کام صرف ایک رہ جائے گا اور شیون مختلفہ میں سے صرف ایک شان ہوگی، یعنی حساب و کتاب اور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ (روح)
Top