Tadabbur-e-Quran - Ar-Rahmaan : 31
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَیُّهَ الثَّقَلٰنِۚ
سَنَفْرُغُ لَكُمْ : عنقریب ہم فارغ ہوجائیں گے تمہارے لیے اَيُّهَا الثَّقَلٰنِ : اے دو بوجھو
(ہم تمہارے لیے فارغ ہی ہو رہے ہیں ،
2۔ آگے آیات 31۔ 45 کا مضمون آگے اس دن کی تصویر آرہی ہے جس سے لوگوں کو ڈرایا جا رہا ہے۔ نظم کلام بالکل واضح ہے۔ آیات کی تلاوت فرمایئے۔ (آیات 31۔ 45) 3۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت۔ (سنفرع لکم ایہ الثقلن فبای الاء ربکما تکذبن) (31۔ 32) (جزاء و سزا کی وعید)۔ ثقلن سے مراد جن و انس، دونوں من حیث الجماعت ہیں۔ جماعتی حیثیت میں چونکہ دونوں بھاری بھر کم بن جاتے ہیں اس وجہ سے ’ ثقلن ‘ کا لفظ استعمال ہوا۔ اس لفظ استعمال ہوا۔ اس لفظ کے استعمال سے اس چیلنج کی منگنی واضح ہوتی ہے جو اس آیت میں جنوں اور انسانوں دونوں گروہوں کو ہیک وقت دیا گیا ہے۔ مطلب یہ نکلا کہ خواہ تم کتنے ہی بھاری لشکر ہو لیکن اللہ جل شانہٗ تم سے تنہا نمٹنے کے لیے عنقریب فارغ ہوا چاہتا ہے۔ فارغ ہونے سے اشارہ اس حقیقت کی طرف ہے کہ ابھی تو اس دنیا کا کارنامہ چل رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ اپنی مدت پوری کرے لیکن وہ وقت دور نہیں ہے جب یہ مدت پوری ہوجائے گی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اس دنیا کے نظم و نسق سے بالکل فارغ ہو کر بندوں کے حساب کتاب کی طرف متوجہ ہوگا اور ایک ایک کا حساب کر کے جس کو جس جزا یا سزا کا سزا اور پائے گا اس کو وہ دے گا۔ اس اسلوب بیان سے یہ مضمون بھی نکلا کہ یہ کام اللہ تعالیٰ سرسری طور پر نہیں بلکہ پوری یکسوئی سے کرے گا۔ اس لیے کہ یہی کام در حقیقت اس دنیا کے پیدا کرنے کی اصل غایت ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو یہ دنیا بالکل بےمقصد بن کے رہ جاتی ہے۔ اس کے بعد آیت ترجیح ہے۔ یہاں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس دنیا میں جو واضح دلیلیں تمہارے سامنے جزاء و سزا کے حق ہونے کی پیش کی گئیں وہ تو تم نے رد کردیں لیکن اس وقت کیا کرو گے جب دیکھو گے کہ فی الواقع روز حساب آگیا اور اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہوگئی ؟ کیا اس وقت بھی جھٹلائو گے ؟ اگر جھٹلائو گے تو آخر اپنے رب کی کتنی نشانیوں کو جھٹلائو گے ؟
Top