Baseerat-e-Quran - Aal-i-Imraan : 28
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
لَا يَتَّخِذِ :نہ بنائیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست (جمع) مِنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : ایسا فَلَيْسَ : تو نہیں مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ فِيْ شَيْءٍ : کوئی تعلق اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ تَتَّقُوْا : بچاؤ کرو مِنْھُمْ : ان سے تُقٰىةً : بچاؤ وَيُحَذِّرُكُمُ : اور ڈراتا ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ نَفْسَهٗ : اپنی ذات وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ الْمَصِيْرُ : لوٹ جانا
اہل ایمان مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں۔ جو ایسا کرے گا اللہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھنے کی وجہ سے بچاؤ اختیار کرو۔ اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 28 تا 30 لایتخذ (نہ بنائیں) اولیاء (دوست (ولی کی جمع ہے) دون المومنین (مومنوں کو چھوڑ کر) من یفعل (جوکرے گا) تتقوا (تم بچو) تقٰه (بچاؤ) یحذر (وہ ڈراتا ہے) نفسه (اپنی ذات) ان تخفوا (اگر تم چھپاؤگے) صدور (دل، سینے (صدر، کی جمع ہے) محضر (حاضر ، سامنے) تود (پسند کرے گا) امدًا بعیدًا (دور کا فاصلہ) ۔ تشریح : آیت نمبر 28 تا 30 28 سے 30 تک آیات کی تشریح یہ ہے کہ اس سے پہلے آیات میں بتایا گیا تھا کہ کسی شخص یا حکومت وسلطنت کا عروج وزوال اور کسی کو عزت وذلت دینا سب اللہ کے اختیار اور قدرت میں ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے۔ ان آیات میں اہل ایمان سے کہا جارہا ہے کہ اے مومنو ! تم مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ اور نہ ان کی دوستی کو اپنے لیے عزت میں زیاتی کا سبب سمجھو کیونکہ عزت اور ذلت سب کچھ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے فرمایا گیا اگر کوئی شخص یا مفاد کے پیش نظر مسلمانوں کو چھوڑ کر کفار کو اپنا دوست بنائے گا تو ایسے شخص کو اللہ کی حمایت ومدد حاصل نہ ہوسکے گی۔ کیونکہ جو اللہ کے دشمنوں سے دوستی رکھے گا وہ اللہ کا دوست نہیں ہوسکتا البتہ اگر کوئی شخص محض تدبیر اور انتظام کے درجے میں کافروں سے ظاہری دوستی رکھے گا تاکہ اس کے شر سے محفوظ رہ سکے تو اس کے لئے یہ محض یہ تعلق جائز ہے لیکن قلبی محبت کی اجازت نہیں ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نبوی ﷺ کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء مفسرین نے کفار کے ساتھ معاملات اور تعلقات کو پانچ درجات میں تقسیم کیا ہے۔ 1 ۔ کافروں کی ملت اور مزہب کو اچھا جانتے ہوئے ان سے قلبی تعلق یا قلبی محبت رکھنا قطعاً حرام اور ناجائز ہے۔ 2 ۔ دوسرے یہ کہ ایک شخص کافروں کے مذہب کو برا سمجھتا ہے مگر دنیوی معاملات میں خوش خلقی اورف حسن سلوک سے کافروں کے ساتھ پیش آتا ہو تو یہ اسلامی رواداری ہے اور جائز ہے۔ ان سے تجارت، لین دین یا دوسرے دنیوی معاملات میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ اگر ان تعلقات سے کفار کو طاقت اور مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو لین دین بھی ناجائز ہے۔ 3 ۔ تیسرے یہ کہ کفار کے طریقوں کو برا تو سمجھتا ہو لیکن کسی دنیاوی لالچ کی وجہ سے مسلمانوں کے مقابلے میں ان کی مدد کرتا ہو یا مسلمانوں کے رازان کو بتاتا ہو یہ قطعاً حرام اور ناجائز ہے ایسا کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ 4 ۔ چوتھے یہ کہ کفر اور اس کے ماننے والوں کو برا تو سمجھتا ہو لیکن کفار کی حکومت کے خلاف یا جانی ومالی نقصان کا اندیشہ ہو تو اس مشکل میں اشس حد تک ظاہری تعلق رکھنا جائز ہے جس سے وہ اسلام کے اخلامات کو ادا کرنے میں سہولت کرسکے۔ 5 ۔ پانچویں یہ کہ تمام غیر مسلموں سے احسان اور ہمددری کا تعلق رکھنا ، نہ صرف جائز ہے بلکہ انتہائی قابل تعریف پہلو ہے کیونکہ خود نبی کریم ﷺ نے غیر مسلموں کے ساتھ بڑا ہمدردی اور احسان کا معاملہ کیا ہے۔ غرضیکہ غیر مسلموں کے ساتھ احسان اور نیکی کا معاملہ کرنا تو بری بات نہیں لیکن ایسا تعلق جس سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو جائز نہیں ہے۔
Top